تحریر ۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید
گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ میں پاکستان چھوڑ کر مقیم ہوئے ہم سے کہیں زیادہ ذہین وفطین افراد ہمیں بتائے چلے جارہے تھے کہ بالآخر اس ملک کے عوام مسلم اْمہ کے ایک خیر خواہ کو اپنا صدر منتخب کرنے جارہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے مسلم دوستی کی امید باندھتے ہوئے امریکہ میں مقیم عاشقان عمران اس امر پر بھی مصر رہے کہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے یا اس دن سے کئی ہفتے قبل ہی نو منتخب امریکی صدر کوئی ایسا ٹویٹ لکھ دیں گے جو حکومت پاکستان پر ’’مسلم اْمہ کے یک وتنہا لیڈر‘‘ کی جیل سے رہائی کے لئے دبائو بڑھائے گا۔ مذکورہ تناظر میں اس تاثر کو بھی فروغ دیا گیا کہ غالباََ ٹرمپ کی جانب سے متوقع دبائو سے گھبرا کر ریاستِ پاکستان کے دائمی اداروں نے شہباز حکومت کو تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھادیا ہے۔ بانی تحریک انصاف اگرچہ بقول ان کے ’’اردلی‘‘ سے نہیں بلکہ وطن عزیز میں طاقت کا اصل سرچشمہ تصور ہوتے ادارے سے براہ راست گفتگو کے خواہاں تھے۔ ان کی یہ خواہش بھی ایک حوالے سے پوری کردی گئی۔ تحریک انصاف کے بانی کی ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے ’’نااہلی‘‘ کے بعد مذکورہ جماعت کے وقتی چیئرمین ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان صاحب کی پشاور میں خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی لہر میں اضافے پر غور کرنے کے لئے ہوئی ایک کانفرنس کے بعد آرمی چیف سے ہیلو ہائے کروادی گئی۔ گزشتہ جمعرات کے دن ہوئی ہیلو ہائے کے باوجود جمعہ کے دن عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مشہور زمانہ القادر ٹرسٹ کیس میں سنگین سزائیں سنادی گئی ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ ان سزائوں کا اعلان ہونے کے باوجود تحریک انصاف حکومت سے مذاکرات جاری رکھنے کو کار بے سود سمجھتی ہے یا نہیں۔
اصل موضوع آج کے کالم کا ویسے بھی نو منتخب صدر امریکہ کی تقریب حلف برداری ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق پیر کی شب دس بجے کے قریب اس تقریب کا انعقاد ہونا تھا۔ سی این این وغیرہ مگررات نو بجے ہی سے حلف برداری کی تقریب کے حوالے سے براہ راست نشریات دکھانا شروع ہوگئے۔ میں نے اپنی بینائی کے تحفظ کے لئے ماہر طبیبوں کی ہدایات کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے اسے رضائی میں دبک کر دیکھنا شروع کردیا۔
امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے حوالے سے کئی دہائیوں سے وہاں مختلف مذاہب اور مسیحی فرقوں کے دینی رہ نما بھی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ اب کی بار ’’مسلمانوں کے خیرخواہ‘‘ اور عمران خان کے دوست تصور ہوئے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں کسی مسلمان عالم کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ تقریب حلف برداری کا دعو ت نامہ چھپ کر برسرعام آیا تو اس میں دعائیہ کلمات ادا کرنے والوں میں ایک مسلم عالم کا نام بھی شامل تھا۔ میں نے خود کو درست اندازہ لگانے پر شاباش دی۔ تقریب حلف برداری کے دوران مگر مختلف مسیحی عقائد کے نمائندوں کے بعد فقط ایک یہودی عالم کو دعائیہ کلمات ادا کرنے کے لئے ڈائس پر بلایا گیا۔ مسلمانوں کو گویا ٹرمپ کے لئے دعائیہ کلمات ادا کرنے کی سہولت بھی فرا ہم نہ ہوئی۔
یہودی عالم نے ’’دعائیہ کلمات‘‘ ادا کرتے ہوئے ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے دن کو اپنے ہم مذہبوں کے لئے ’’سعد‘‘ دن قرار دیا کیونکہ اسی روز حماس نے اسرائیل کے مغوی رہا کئے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ امید اجاگر ہوئی کہ اسرائیل اور حماس جلد ہی امن کے لئے مذاکرات شروع کردیں گے۔ یہودی عالم نے اغواء ہوئے افراد کی رہائی کا ذکر کیا۔ مذکورہ رہائی کو ٹرمپ کی حلف برداری کے دن سے نتھی کیا تو اْس کی پیش کردہ توجیہہ کو سراہنے کیلئے کملاہیرس اور جوبائیڈن اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر تالیاں بجانا شروع ہوگئے۔یہ واحد موقع تھا جب ٹرمپ کے بدترین مخالف کملا اور بائیڈن نے کھلے دل سے اس تقریب کے کسی مرحلے پر بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔
قصہ مختصر امریکی اشرافیہ کے کسی بھی رکن کے لئے اسرائیل اب بھی اہم ترین ہے۔ مسلمان اور ان کی خوش دلی کا حصول امریکہ کے طاقتور ترین حلقوں کی توجہ کے مستحق تصور نہیں ہوتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ میں کئی برس گزارنے کے بعد بہت ہی خوش حال ہوئے عاشقان عمران مجھ جیسے جاہلوں کو ٹرمپ کے حوالے سے یہ امید دلاتے ر ہے کہ وہ بائیڈن کے مقابلے میں اسرائیل کے تناظر میں ’’مسلمان دوست‘‘ ہے۔ اسرائیل کو غزہ میں وحشت ناک جارحیت سے روکے گا۔
امریکہ کا صدر منتخب ہوتے ہی ٹرمپ نے حماس کو تڑی لگائی کہ وہ اپنی قید میں رکھے اسرائیلی شہریوں کو جلد از جلد رہا کرے۔ اس مطالبے کے بعد اس نے ’’ورنہ‘‘ کا دہشت ڈالتا لفظ بھی استعمال کیا۔ حماس اس کے بیان کے بعد چند مغوی چھوڑنے کو آمادہ ہوگئی۔ اس کے بدلے حماس کے قیدی بہت بڑے تناسب کے ساتھ رہا ہوں گے۔ جنگ بندی بھی ہوجائے گی۔ اس کے بعد مگر حماس کو غزہ کی پٹی میں بے اثر بنانے کے لئے اسرائیل جو بھی حکمت عملی اپنائے گا امریکی صدر ٹرمپ اس کی بھرپور حمایت کرے گا۔ جان کی امان پاتے ہوئے مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیں کہ چند طاقتور مسلم ممالک بھی اس ضمن میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔
میری جوانی میں یاسر عرفات اور ان کی پی ایل او فلسطینیوں کے واحد اور طاقت ور ترین رہ نما بن کر ابھری تھی۔ ابھی میں سکول کا طالب علم تھا تو 1967ء کی جنگ میں اردن کے زیر نگین فلسطینی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ مسجد اقصیٰ بھی اس کے تسلط میں چلی گئی۔ فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اردن نے فلسطینیوں کو اپنے ہاں آباد فلسطینیوں کو یاسر عرفات سمیت لبنان دھکیل دیا۔ 1980ء کی دہائی میں پی ایل ا و کو لبنان سے نکل کر تیونس جانے کو مجبور کردیا گیا۔ اس کے بعد یاسر عرفات اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ میں سمجھوتے کو مجبور ہوئے۔ میرے منہ میں خاک۔ نجانے مجھے کیوں یہ خیال ستائے چلا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس لوٹنے کے بعد حماس کو بھی اسی طرح بے دست وپا بنانے کی کوششیں شروع ہوجائیں گی جو یاسر عرفات کی بنائی پی ایل ا و کو مفلوج تر بنانے کے لئے استعمال ہوئی تھیں۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید
کمیشن نہیں بنا تو حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں ہوں گے، پی ٹی آئی کا اعلان
قومی اسمبلی اجلاس کے ایک دن کا خرچہ کتنا؟ بڑا دعویٰ سامنے آگیا
گاڑیوں کی رجسٹریشن کیلئے متعلقہ ضلع کی شرط ختم
آپ سستی گاڑیاں چھوڑ کر مہنگی گاڑیاں خریدیں ایسا نہیں ہونے دیں گے: فیصل واؤڈا
امریکا پاکستان کا انتہائی اہم معاشی اور دفاعی شراکت دار ہے، محسن نقوی
اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر قرضوں سے چھٹکارا پانا مشکل ہے: وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب
بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے حکومت قومی کانفرنس بلائے: لیاقت بلوچ
محکمہ موسمیات نے شعبان المعظم کے چاند کی پیش گوئی کردی
ٹرمپ نےیوکرین کےمسئلےپر چینی صدر سےمدد کی اپیل کر دی
حکومت کا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ