پنشن ہمارے بزرگوں کا آخری سہارا

تحریر۔۔۔۔۔۔۔میاں اشفاق انجم
ہمارے دین میں والدین کا احترام لازم! وہ نوجوان ہوں یا بزرگ وطن ِ عزیز میں زندگی کی بہاریں مکمل کرنے والے دیہاتی شہری، بزرگ جو سرکاری ملازم نہ بھی ہوں ان کی ساری اُمیدیں اپنی اولاد تک محدود ہوتی ہیں،اولاد کی پرورش، ان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ساری صلاحیتیں،سارے وسائل لگا دیتے ہیں ان کا مطمع نظر یہی ہوتا ہے یہ بڑے ہو کر ہماری بزرگی کا سہارا بنیں گے وہ اپنی ساری اُمیدیں اس اولاد سے وابستہ کر لیتے ہیں جس کو قرآن کریم نے بھی فتنہ قرار دیا ہے،زمینی حقائق بتاتے ہیں پاکستانی،وہ سندھی ہو یا پنجابی،کشمیری ہو یا بلوچی، حرام حلال کی تمیز اگر بھلاتا ہے تو وہ اولاد کے سُکھ کے لئے بھلاتا ہے۔وہ ہر صورت اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔

دوسری طرح کے ہمارے بزرگ وہ ہیں جو اپنی مدتِ ملازمت وہ 30سال ہو یا 35سال اس کو ایمانداری اور اخلاص سے اِس لئے مکمل کرتے ہیں کہ ان کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم سے وہ گھر بنا سکیں گے؟ بیٹی، بیٹے کی شادی کر سکیں گے؟ حج عمرہ کر سکیں گے؟ اور پنشن سے اپنی باقی ماندہ زندگی کے دن پورے کرنے کے لئے روٹی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔یہ کہنے کی بات نہیں ہے؟عملاً ہے۔ ذاتی طور پر صحافتی طالب علم کی حیثیت سے درجنوں بزرگوں اور درجنوں ریٹائر ہونے والوں سے ملاقات کر کے ان کے پلان سے آگاہی حاصل کر چکا ہوں،بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے60سال مکمل ہونے پر ابھی ریٹائر ہونا ہے وہ55سال سے ہی گھر بنانے، عمرہ کرنے یا حج کرنے،بیٹی کی شادی،بیٹے کی نوکری سب پلان تشکیل دے چکے ہیں۔

تازہ ترین ایک ہمارے دوست ریٹائر ہوئے وہ پی آئی سی میں کک تھے ہم جب پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم تھے وہ ہمارے ہوسٹل میں بھی کک ہی تھے ہم تعلیم سے فارغ ہوئے، 1992ء میں وہ پی آئی سی میں ڈاکٹروں کے کھانا پکانے میں لگ گئے،سرکاری جاب تھی،ہوسٹل میں بھی کھانا پکاتے تھے اور روٹیاں لگاتے تھے اب ڈاکٹر ہوسٹل میں بھی طرح طرح کے کھانے پکانے میں مصروف ہو گئے، دیکھتے ہی دیکھتے 32 سال گزر گئے،میرا اُن سے رابطہ رہتا تھا جن باتوں کا ذکرکیا ان کا منصوبہ بھی ایسا ہی نظر آیا، ایک بیٹی بیٹے کی شادی کر لی دوسرے کی ریٹائر ہونے پر کرنی ہے۔دسمبرمیں ریٹائر ہوئے تھے مجھے ملے،میں نے اُنہیں آفر کی مکہ مدینہ میں کئی دوست مجھے اچھے کک کا کہتے رہتے ہیں مجھے فرماتے لگے ایک ماہ آپ سے نہیں ملوں گا،پنشن لگوانے کے بعد ملوں گا،40ہزار لگ جائیں، 20لاکھ مل جائے،بیٹی کی شادی کی تاریخ رکھی ہے جیسے تیسے نذرانے دیکر،سفارشیں کروا کر گزشتہ ہفتے ہمارا دوست گریجویٹی حاصل کرنے اور پنشن لگوانے میں کامیاب ہو گیا اب اس کے اگلے ریٹائرمنٹ کے منصوبے وہی ہیں اتنے پیسے گھر کی چھت پر لگانے ہیں،اتنے بیٹی کی شادی پر اور اتنے بیٹے کی شادی کے لئے رکھنے ہیں وہ اس ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے دوست کی 34 سالہ زندگی کے تمام رموز کو بطور سبق اور پاکستانی قوم کی رہنمائی اور حکومتی اداروں کے المیے کے لئے سامنے رکھ رہا ہوں، بہت سے اداروں کی طرح ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی نظر ہمارے بزرگوں پر بھی ہے، طاغوتی اداروں کو ہمارے سرکاری ملازمین کی سرکاری نوکری، ریٹائرمنٹ کے بعد کے منصوبوں سے بھی خوف محسوس ہو رہا ہے۔یہ بچوں کی خوشیاں نہ دیکھ سکیں،یہ بڑھاپے کے دن اچھے نہ گزار سکیں۔ گزشتہ دِنوں سامنے آنے والی رپورٹ تو اس انداز کے منفی طریقے سے پیش کیا گیا کہ جیسے پاکستانی عوام بڑا ظلم ڈھا رہی ہے۔ بتایا گیا پنشن اخراجات ایک ہزار ارب سے متجاوز کر گئے، وفاق کا فوری اصلاحات کے نفاد پر غور، پنشن حساب لگانے کا نظرثانی شدہ فارمولا قبل از وقت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے شامل۔ حکومت، سول اداروں کو1200 اور مسلح افواج کے پنشنرز کو 750 ارب پنشن ادا کر رہی ہے۔ساتھ بتایا گیا تھا کہ 1000ارب سے متجاوز ہونے پر فوری اصلاحات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے حکومت کے بیورو کریسی کو چلانے کی لاگت سے زیادہ پنشن پر خرچ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات میں تقریباً چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ سول حکومت کو دو اعشاریہ سات گنا اضافہ ہوا ہے اِسی لئے حکومت کو ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری، نیم سرکاری اور فوجی حضرات کو ملنے والی رقم حکومت یا ادارے اپنے پاس سے نہیں دیتے،بلکہ انہی کی تنخواہوں، مراعات سے کاٹی جاتی ہے،30یا34سال تک جمع ہوتی جاتی ہیں اس کا زیادہ حصہ گریجوٹی کی شکل میں دے دیا جاتا اور باقی رقم پنشن کی صورت میں باقی زندگی ملتی ہے۔ پھر تحقیق کی اگر سرکاری ملازمین کی رقم ہے، گریجویٹی اور پنشن انہی کی تنخواہوں میں سے کاٹی جاتی ہے تو پھر گڑ بڑ کیا ہے؟پتہ چلا جو رقم اداروں یا سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے وہ ادارے اور حکومتیں خرچ کر ڈالتی ہیں،وہ سرکاری اداروں تک محدود نہیں وہ نیم سرکاری اداروں کے ای او بی تک بھی اس سے نہیں بچے، ہماری اُلٹی گنگا بہہ رہی، اداروں اور نظام کو شفاف بنانے کی بجائے ہم مدعا ہی غائب کرنے میں لگ جاتے ہیں، رہی سہی کسر ہمارے مغربی ادارے جن کو ہماری خوشحالی اور ہمارے اداروں کی مضبوطی ایک آنکھ نہیں بھاتی،وہ ہماری تباہی کا سامان کسی نہ کسی انداز میں لے آتے ہیں۔ پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہمارا آدھا بجٹ فوج کھا جاتی ہے یہ پراپیگنڈہ بھی زمینی حقائق کے منافی ہے جو کام فوج کر رہی ہے،جو قربانیاں وطن عزیز کے لئے دے رہی ہے اور کوئی دے سکتا ہے؟ایک دن ہماری فوج خاموش ہو جائے ہمارا دشمن جو پھن پھیلائے ہوئے چاروں اطراف موجود ایک دن میں ہمیں ہڑپ کر جائے، پھر شوشے چھوڑے گئے ہمارے بجٹ کا سارا پیسہ پنشنر لے جا رہے ہیں جہاں سے ان کی دو عملی عیاں ہو گئی،پنشنر ان کے بجٹ کا کیسے پیسہ لے گئے ان سرکاری ملازموں کا پیسہ کہاں گیا؟یہ کسی نے آج تک سوال نہیں کیا؟ اندھیر نگری سرکاری سطح پر ورلڈ بنک،آئی ایم ایف کے اشارے پر60 سال سے عمر کر کے55سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔وفاق اور دیگر تین صوبوں کا حال تو پھر دیکھیں، پنجاب ہمارا سب سے آگے ہے پنشن میں سالانہ اضافہ ختم، تو ریٹائرمنٹ لینے والوں کے لئے کٹوتی طے کر دی گئی ہے، تین طرح کی پنشن میں سالانہ اضافہ ختم کر دیا گیا ہے،اضافے میں بندش کا آغاز دو دسمبر سے ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین پر ہو گا تمام محکموں کو دو دسمبر کے مراسلے پر عملدرآمد کی ہدایات کا سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔ محکمہ خزانہ کے2015ء میں جاری مراسلہ کے پیرا گراف کے تحت پنشن میں اضافہ 2011ء میں جاری مراسلے کے گراف ٹو کے تحت جاری اضافہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔اس طرح2022ء میں جاری پیرا گراف ون کے تحت جاری پنشن کا اضافہ بھی ختم کر دیا گیا۔ دو دسمبر کو جاری ہونے والا مراسلہ کے تحت تمام محکمے اور ادارے اقدامات کریں گے، خود ریٹائرمنٹ لینے والوں کی پنشن میں بھی کٹوتی ہو گی،59سالہ شخص کی ریٹائرمنٹ دو فیصد کٹوتی، 58سالہ شخص چار فیصد، 57سالہ شخص کی چھ فیصد،56سالہ شخص کی ریٹائرمنٹ لینے پر آٹھ فیصد، 55 سالہ شخص کی ریٹائرمنٹ لینے پر خودبخود پنشن میں 10فیصد کٹوتی ہو گی۔ ہمارے60 فیصد نوجوانوں کے لئے خطرات اپنی جگہ،40فیصد بزرگوں کے لئے بھی تباہی بربادی کا سامان کر دیا گیا ہے۔اِس وقت ملک بھر میں پنشنر نئے قوانین کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور سراپا احتجاج،وفاقی اور صوبائی حکومت سے درخواست ہے صرف آئی ایم ایف کی آنکھیں بند کر کے تقلید نہ کی جائے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ پنشن بزرگوں کا آخری سہارا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں