تحریر۔۔۔۔۔۔حامد ولید
مذاکرات کے نام پر چالے دیکھنے کے لائق ہیں۔ پینترے پر پینترا بدلنا اور سیدھی لگاتے لگاتے الٹی قلا بازی لگانا کوئی ان سے سیکھے۔ جس ہڑبونگ طریقے سے انہوں نے مذاکرات کا دروازہ بند کیا ہے،اس سے ان کی مایوسی سے زیادہ ان کی چال نظر آتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کوئی امید پیدا ہو گئی ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں وہ کچھ انہونی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ اس سارے عمل سے ان کے ورکرز میں امید کی ایک نئی کرن ہی نہیں جاگی ہے بلکہ کئی ایک اینکر پرسنوں اور تجزیہ کاروں کو بھی وہ کچھ نظر آنے لگا ہے جو شائد عمران خان کو بھی نظر نہیں آرہا ہو گا۔ مذاکرات کے اچانک منسوخ ہونے پر ان حضرات نے دور کی کوڑی لانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے اور کبھی اس پہلو تو کبھی اس پہلو سے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں (اور تلی ہوئی ہیں) کہ کچھ انہونا ہونے جا رہا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا واقعی پی ٹی آئی کو صدر ٹرمپ کے حلف کے بعد حکومت سے مذاکرات کی ضرورت نہیں رہی ہے یا پھر عمران نے عجلت میں ایک اور یو ٹرن لے لیا ہے؟ چونکہ امریکہ کی جانب سے یا پھر صدر ٹرمپ کی جانب سے ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے جس کو دیکھ کر کہا جا سکے ک”مختاریا گل ودھ گئی اے!”
چنانچہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کو ختم کرنے کے اعلان کو ایک اور یو ٹرن ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہوں گے ایسا کرنے سے وہ حکومت کو دھول چٹا نے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک مرتبہ پھر ان کی لات وزیر اعظم شہباز شریف پر ہو گی۔ انگریزی میں ایسا کرنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ گیلری میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، یعنی وہ اپنے آپ کو عوام میں زندہ رکھنے کے لئے ایسا کر رہا ہے۔ اس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، پی ٹی آئی کی چلائی ہوئی فلم کا کھڑکی توڑ ہفتہ ضرور لگا رہے گا۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ گھبرائی ہوئی ہے اس لئے اسے مزید گھبراہٹ کا شکار کیا جائے تاکہ اگر کہیں کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو اس میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پوزیشن کو کمزور دکھایا جا سکے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کو جتایا جا سکے کہ عمران خان تو ضد پر اڑا ہوا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ اس کو رہا کر کے جلاوطن کر دیا جائے۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی ایسی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔
مگر عمران خان اس قدر پاپولر نہیں ہیں جس قدر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تھے۔ ایک چاروں صوبوں کی زنجیر تھی تو دوسرا پنجاب کا لاڑا تھا اس لئے اسٹیبلشمنٹ کے لئے ان کی پاپولیریٹی کے آگے پل باندھنا آسان نہ تھا۔ البتہ عمران خان کا معاملہ مختلف ہے، وہ سوشل میڈیا پر زیادہ اور زمین پر کم پاپولر ہیں۔ آج اگر سوشل میڈیا خاموش ہو جائے تو عمران خان صرف ایک کرکٹر کے طور پر زندہ رہ سکیں گے، بطور سیاستدان ان کا قد کاٹھ نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی قد کاٹھ بہت زیادہ ہے، وہ ان کی نظر کا دھوکہ ہے۔
اس لئے عمران خان نے مذاکرات پر یو ٹرن لے کر ایسا جوا کھیلا ہے جس میں ان کی ہار یقینی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب وہ اس شخص کو ڈھونڈتے پائے جائیں گے جس نے ان کو مذاکرات ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بہت دیر سے 20 جنوری کی پلاننگ کر رکھی تھی اور پوری طرح سے تیار تھی کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کی صورت حال سے نپٹنے کے لئے ان کی کیا حکمت عملی ہو گی۔
جس طرح عمران خان نے اچانک مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ صرف ان اک ٹوئٹر ہینڈلر ہی بیرون ملک سے نہیں چلا رہا بلکہ ان کی سیاسی حکمت عملی بھی بیرسٹر گوہر کی بجائے کوئی امریکہ برطانیہ یا کینیڈا میں بیٹھا ہوا گروہ ہی بنا رہا ہے۔ یہ گروہ پاکستان کے اندر کی زمینی صورت حال سے واقف ہو نہ ہو، اسٹیبلشمنٹ کی راجدھانی کو نشانہ بنانے کا مشن ضروراپنائے ہوئے ہے۔ ان کے ان عزائم کو دیکھ کر ہی بلاول بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ عمران خان بہانہ، ایٹمی پروگرام نشانہ ہے۔ اس نعرے کا خاطر خواہ اثر ہوا تھا اور صدر ٹرمپ اپنی حلف برداری سے لے کر اب تک عمران خان کا تذکرہ اپنی زبان پر نہیں لا ئے، اس کے برعکس بلاول بھٹو کو ناشتے کی میز پر مدعو کر لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی عوام کی طرح ٹرمپ انتظامیہ بھی بلاول بھٹو کی طرف دیکھنا چاہتی ہے اور اپنا وقت ان پر صرف نہیں کرنا چاہتی۔
البتہ عمران کا فین کلب ابھی تک ہوائی قلعے تعمیر کرنے میں لگا ہوا ہے اور ان کا حال یہی ہے جو چچا غالب کا تھا کہ قرض کی پیتے تھے مے اور اور سمجھتے تھے کہ ان کی فاقہ مستی رنگ لا کر رہے گی۔ ان حلقوں سے اتنی ہی گزارش ہے کہ اپنی توانائیوں کو چلے ہوئے کارتوس پر مت ضائع کریں کیونکہ عمران کبھی سیاست کے لئے موزوں نہیں رہے۔ وہ تو جنرل فیض حمید کی اندھی خواہش کے سبب یہاں تک پہنچ گئے۔
بشکریہ ۔۔۔۔۔حامد ولید