تحریر۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید
اس کالم کے چند باقاعدہ قاری حیران ہیں۔ سمجھ نہیں پارہے کہ میں حال ہی میں نظر بظاہر ’’عجلت‘‘ میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروائے ان قوانین کے بارے میں کچھ لکھ کیوں نہیں رہا جن کے خلاف ملک بھر میں میری برادری سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ ’’آزادی صحافت‘‘ کی جدوجہد سے ایسی بے اعتنائی میں نے کبھی برتی نہیں۔ اب کی بار خاموشی کیوں اختیار کررکھی ہے۔
مزید بڑھنے سے قبل نہایت عاجزی مگر ایمانداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ عمر کے آخری حصے میں تھک گیا ہوں۔ عمر بھر کا سفر رائیگاں محسوس ہوتا ہے۔ صحافت کے علاوہ رزق کمانے کے کسی اور ذریعے سے واقف ہی نہیں۔ لطیفہ مگر یہ بھی ہوا کہ 1975ء سے آج تک کسی بھی نوکری پر ٹک نہیں پایا۔ وجہ اس کی ہمیشہ زیادہ تنخواہ کی خواہش نہیں بلکہ اس ادارے کی مجبوری رہی جو میری دی خبروں اور کالموں وغیرہ کی وجہ سے عتاب شاہی کا نشانہ بن جاتے۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگتے ہی 1978ء سے ملک کے کئی شہروں میں جاکر صحافیوں کے احتجاج میں شریک ہوتا۔ اسی دور میں ہمارے چار ساتھیوں کو برسرعام ٹکٹکی باندھ کر کوڑے بھی لگائے گئے تھے۔ ہم مگر ڈٹے رہے اور بالآخر 1985ء میں ہوئے غیر جماعتی انتخابات کی بدولت قائم ہوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ نے صحافت کو نہ صرف تھوڑا آزاد کیا بلکہ اسے معاشی اعتبار سے پھلنے پھولنے کے امکانات بھی فراہم کئے۔
صحافت کے ان ’’اچھے دنوں‘‘ ہی میں لیکن ہمیں نہایت ہوشیاری سے حکمرانِ وقت نے ’’صحافیوں کی ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ بنانے کی راہ دکھائی۔ پلاٹوں کے بعد ’’لفافوں‘‘ کا ذکر بھی شروع ہوگیا۔ پلاٹ اور لفافے بٹ گئے تو حکمرانوں نے اپنی پسند کی ’’صحافت‘‘ کو پروان چڑھانے کے سوڈھنگ سیکھ لئے۔ میری بدقسمتی رہی کہ گنگا جب بہہ رہی تھی تو اس میں ہاتھ بھی اچھی طرح سے نہ دھوسکا۔ برسوں کی مشقت کی وجہ سے جو مہارت نصیب ہوئی تھی اس کی بدولت تھوڑی شہرت ملی تو صحافت کے بڑے اداروں سے نسبتاََ بہتر اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ ’’بروقت‘‘ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی۔ کرائے کے مکان میں رہتے ہوئے دل اب گھبراتا نہیں تھا۔ بقیہ زندگی شاید قناعت بھرے دل کے ساتھ گزرہی جاتی۔
1999ء میں لیکن ایک بار پھر اب ’’رعایا‘‘ کو صحیح سمت پر ڈالنے کے لئے جنرل مشرف چابک سوار کی طرح نازل ہوئے۔ مارشل لاء لگانے سے قبل انہوں نے کارگل کے راستے سری نگر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ وہاں پہنچنے میں ناکام رہے تو دریافت کیا کہ قوم کو کسی’’بڑے مقصد‘‘ کی خاطر یکسو اور متحرک رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی صحافت کی سرپرستی فرمائی جائے۔ پرنٹ میڈیا کو ماضی کا مزار بناتے ہوئے ہماری ریاست ٹی وی جرنلزم کی سرپرستی فرمانا شروع ہوگئی۔ ان ہی دنوں موبائل فون کے استعمال کو رواج بنانے کے لئے کئی ٹیلی کام کمپنیاں بھی متحرک تھیں۔ ان کے دئے اشتہاروں سے ٹی وی صحافت میں رونق لگ گئی۔ اس سے وابستہ ’’صحافی‘‘ جلد ہی مشہور ایکٹروں جیسے سیلبرٹی ہوگئے۔ مجھے پرنٹ میڈیا کی گہرائی اور گمنامی دل سے بہت پسند تھی۔ تھوڑا راحت بھرا رزق کمانے ٹی وی صحافت جوائن کرنے کو مجبور ہوا اور اس طرز صحافت کے لئے ایسا ’’سبز قدم‘‘ ثابت ہوا کہ میرے ٹی وی صحافت شروع ہونے کے چند ہی ماہ بعد جنرل مشرف نے ایمرجنسی پلس لگاکر مجھے چند اینکروں سمیت ٹی وی سکرینوں کے لئے بین کردیا۔
ٹی وی صحافت کی سرپرستی فرمانے کے بعد ہماری ریاست کو جلد ہی سمجھ آگئی وہ اس کی بدولت ’’صحافی‘‘ نہیں ’’سٹار‘‘ بنارہی ہے جو من مانی کرتے ہیں۔ ان سے نجات پانے کے لئے پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ کی داستان ایجاد ہوئی۔ جنگ کی یہ انوکھی قسم لڑنے کے لئے چند ’’کمانڈو‘‘ تیار کئے گئے۔ وہ ریاستی سرپرستی کے پیرا شوٹ کی بدولت ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوگئے۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھ ایسے صحافی ’’غدار وتخریب کار‘‘ ٹھہرائے۔ عمران حکومت اور ’’ان ‘‘کے درمیان کامل ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ٹی وی سکرینوں سے غائب کردئے گئے۔
دریں اثناء انٹرنیٹ نے یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم مہیا کردئے۔ ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ نے موبائل فون کے ہر مالک کو پہلے سے ’’صحافی‘‘ بنارکھا تھا۔ انٹرنیٹ کی بدولت متعارف ہوئی صحافت کو Journalism Citizenکہا جاتا ہے۔ اس کی بدولت ’’شہری صحافی‘‘ متحرک ہوئے۔ ہم جیسے ملکوں میں لیکن ریاست ’’شہری‘‘ نام کے ’’جانور‘‘ سے واقف نہیں۔ اس کے سلطان محض ’’رعایا‘‘ کو حکم دینے کے عادی ہیں۔ مذکورہ حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں روایتی ٹی وی سے بین ہوجانے کے بعد یوٹیوب کے چکر میں نہیں پڑا۔ اس کی ایک وجہ اگرچہ میری پیدائشی کاہلی بھی تھی۔ میرے چند دوستوں نے مگر یوٹیوب کے پلیٹ فارم کو نہایت ذہانت ومہارت سے استعمال کیا۔ نیک نامی اور شہرت کے علاوہ صحافتی اداروں کی محتاجی سے بھی نجات پائی۔
رعایا سے ابھرے ’’صحافی مگر ہم جیسی ریاستوں سے برداشت نہیں ہوتے۔ گزشتہ کئی برسوں سے لہٰذا انہیں لگام ڈالنے کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔ فروری 2024ء کے انتخابات کی بدولت بالآخر ایسا حکومتی بندوبست میسر ہوگیا جو ’’آئینی اور قانونی ‘‘ ا نداز میں ’’شر‘‘ پر قابو پاسکتا ہے جو نام نہاد سوشل میڈیا بقول ہمارے حکمرانوں کے ’’فیک نیوز‘‘ کے ذریعے پھیلاتا ہے۔ ’’فیک نیوز‘‘ پر قابو پانے کے لئے جو قوانین متعارف کروائے گئے ہیں ان کی کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی سنجیدگی سے مخالفت نہیں کی۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی عرصہ ہوا صحافیوں سے اکتائی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اصل قوت تحریک انصاف کو پہنچائی تھی۔ اس جماعت کے نمائندگان بھی پیکا قوانین کی منظوری روکنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دئے۔ صحافیوں کو سیاستدانوں نے حقارت سے بھلادیا ہے۔ بات مگر چل نکلی ہے اور یہ فقط سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ جلد ہی آپ حال ہی میں پارلیمان سے منظور ہوئے قوانین کی وجہ سے کئی نامی گرامی صحافیوں کو ذلیل ورسوا ہوتا دیکھیں گے۔ میری دیانتداری سے کوشش ہوگی کہ میں شترمرغ کی طرح ریت میں سردبائے حقائق کو نظرانداز کرتا رہوں۔
بشکریہ۔۔۔۔نصرت جاوید
چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان تحریک انصاف کو…
ملک میں شعبان 1446 ہجری کا چاند نظر آگیا ہے۔شعبان المعظم کا چاند دیکھنے کے…
وزارت داخلہ نے شہزاد اکبر اور فرح شہزاد کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے ہیں۔ذرائع کے…
وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے حکم دیا ہے کہ منشیات کے خاتمے…
محققین نے انکشاف کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ایک جدید نظام نے انسانی مدد…
اس میں موجود وٹامن سی سے جسم کوتوانائی ملتی ہےکینو سردیوں کا ایک لذیذ پھل…