تحریک انصاف حکومت سے نجات کیسے حاصل کرے؟

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید
بانی تحریک انصاف کو بتدریج سمجھ آرہی ہے کہ ان کی جماعت ملک گیر مقبولیت کے باوجود موجودہ حکومتی بندوبست سے فقط اسی صورت نجات حاصل کرسکتی ہے کہ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس کے ساتھ مل کر ماضی کی پی این اے یا ایم آر ڈی جیسی تحریک چلائیں۔ ان دو تحاریک کا ذکر کرتے ہوئے ہی مگر یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے تحت چلائی پی این اے کی تحریک بالآخر جمہوریت نہیں بلکہ ’نظام مصطفیؐ‘کا نعرہ لگانے کو مجبور ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے میں وہ یقینا کامیاب ہوگئی۔ قوم کو مگر اس کے بعد گیارہ برسوں تک جنرل ضیاء کی بادشاہی قبول کرنا پڑی۔ 4جولائی 1977ء کی صبح نمودار ہوئے اس فوجی آمر نے نفاذ اسلام کے نام پر دینی جماعتوں کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملالیا۔ بعدازاں افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اس کے خلاف برپا کیے ’جہاد‘ نے موصوف کو نام نہاد ’آزاد اورجمہوریت نواز‘ امریکا اور یورپ کابھی چہیتا بنادیا۔
ایم آر ڈی 1983ء میں سینکڑوں افراد کی رضاکارانہ گرفتاریوں اور کارکنوں کی ریاستی قوتوں کے ہاتھوں اموات کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ روایتی سیاسی جماعتوں کو بے اثر بنانے کے لیے 1985ء میں ’غیر جماعتی انتخاب‘ ہوا۔ اس کے نتیجے میں اگرچہ جو قومی اسمبلی وجود میں آئی اس کے اراکین جنرل ضیاء کی موت کے بعد آنے والی اسمبلیوں کے اراکین سے کہیں زیادہ متحرک وخودمختاری دکھانے کو بے چین رہتے تھے۔ اسی باعث مئی 1988ء میں جنرل ضیاء اپنی ہی تشکیل کردہ پارلیمان تحلیل کرنے کو مجبور ہوئے۔ اس کے بعد مگراپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی نئی حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہے۔ دریں اثناء امریکا روس کو افغانستان سے جنرل ضیاء کی معاونت سے نکال چکا تھا۔ پاکستان سے اس کے بعد بیگانگی اختیار کرلی۔ ایوب خان نے ’جس رزق سے آتی ہو…‘ کا گلہ کیا تھا۔ جنرل ضیاء ’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہونے‘ کا ذکر شروع ہوگئے اور بالآخرفضائی حادثے کی نذر ہوگئے۔
ماضی کے حوالے دو تو حقارت سے مجھ جھکی اور شکست خوردہ شخص کو بتایا جاتا ہے کہ زمانہ اب بدل گیا ہے۔ فیس بک اور واٹس ایپ نے عام آدمی کو اپنی اہمیت کا احساس دلوادیا ہے۔ موجودہ حکومتی بندوبست اس کی وجہ سے محض ’ایک دھکا اور دو‘ کا منتظر ہے۔ تحریک انصاف اگر حکومتی بندوبست سے الگ کھڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر میدان میں اتری تو قبل از وقت انتخاب کروانے کے علاوہ ’مقتدرہ‘ کوئی اور راہ اختیار کرنے کا سوچ ہی نہیں پائے گی۔ اسی باعث گزشتہ تین دنوں سے ’گرینڈ اپوزیشن الائنس‘ کے چرچے ہورہے ہیں۔ میرے پرانے دوست محمود خان اچکزئی کی اسلام آباد میں جائے قیام پر ایک عشائیہ ہوا۔ وہاں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر بھی مدعو تھے۔ توجہ کا مرکز مگرمولانا فضل الرحمن رہے۔ امید باندھی جارہی ہے کہ وہ اگر گرینڈ الائنس کا حصہ بن کر عوامی تحریک چلانے کو آمادہ ہوگئے تو موجودہ حکومتی بندوبست اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔
رپورٹنگ سے ریٹائر ہوچکا ہوں۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے بھی عرصہ ہوا سرِراہ ملاقاتیں بھی نہیں ہوپائی ہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے مگر ڈھٹائی سے اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کے امکانات کے بارے میں پرجوش محسوس کرتے نوجوان ساتھیوں کو بتاتا رہا کہ مولانا تحریک انصاف کے ساتھ مل کر سڑک گرمانے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔ قابل اعتماد ذرائع نے اچکزئی کی قیام گاہ پر ہوئے اجلاس کے دوران اٹھائے چند سوالات کا ذکر کرتے ہوئے میری سوچ کو تصدیق فراہم کردی ہے۔
جو اجلاس ہوا اس کے دوران نہایت سنجیدگی سے اس سوچ کا اظہار بھی ہوا کہ پاکستان میں اس وقت محض ایک سیاسی رہنما (عمران خان) کی گرفتاری ہی کلیدی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اہم وطن عزیز کے دوصوبوں -بلوچستان اور خیبرپختونخوا- کے مخدوش حالات ہیں۔ ان دو صوبوں کے بیشتر علاقوں میں ریاستی رٹ مفقود ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے آبائی ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی مغرب کے بعد لوگ گھروں سے باہر آنے سے خوف کھاتے ہیں۔ چار سے زیادہ مہینوں سے کوہاٹ کو پارا چنار سے ملانے والی 80کلومیٹر لمبی سڑک وہاں کے دونوں جانب بیٹھے متحارب گروہوں کی وجہ سے کاملاً بند ہے۔ کئی جرگے ہونے کے باوجود اس سڑک کو ابھی تک کھلوایا نہیں جاسکا۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ریاستی رٹ کی عدم موجوگی کا ذکر ہو تو اس کی وجہ 8فروری کے انتخاب بتائے جاتے ہیں جب مبینہ طورپر ’حقیقی عوامی نمائندوں‘ کو کامیاب ہونے نہیں دیا گیا۔ مذکورہ دلیل کو اگر ذہن میں رکھیں تو مولانا فضل الرحمن کی ’گرینڈ الائنس‘ سے دوری کی وجوہات سمجھ آسکتی ہیں۔ تحریک انصاف مصر ہے کہ 8فروری 2024ء کے دن اس کا ’مینڈیٹ‘ چرایا گیا۔ خیبرپختونخوا کے حوالے سے مگر وہ اس الزام کا اطلاق کرنے سے کتراتی ہے۔ مذکورہ صوبے میں ان کی جماعت دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے بیٹھی ہے۔ نظر بظاہر بے پناہ عوامی مقبولیت کے ساتھ بنائی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اگر خیبرپختونخوا میں ریاستی رٹ کا اطلاق نہیں کرپارہی۔ چار مہینوں سے کوہاٹ کا پارا چنار سے رابطہ بحال کرنے میں بھی ناکام ہے تو قبل از وقت انتخاب ’ریاستی رٹ بحال‘ کرنے میں کیسے کامیاب ہوں گے۔ قبل ا ز وقت انتخاب کے لیے چلائی تحریک بلکہ دانستہ یا نادانستہ طورپر مذہبی انتہا پسندوں کو مزید توانائی فراہم کرنے کے کام آئے گی۔
غالباً اسی باعث مولانا فضل الرحمن فی الوقت اپنے کارکنوں کو سڑک پر لانے سے ہچکچارہے ہیں۔مذہبی انتہا پسندوں کے جدید ہتھیاروں سے لیس افراد گز شتہ کئی برسوں سے مولانا فضل الرحمن کی ’جمہوری سیاست‘ پر سوال اٹھارہے ہیں۔ ’جمہوریت‘ طالبان کی نگاہ میں ’نظام اسلام‘ کے بنیادی اصولوں کی ترجمانی نہیں کرتی۔ انھیں ’امیر المومنین‘ درکار ہے اور ’امیر المومنین‘ ہمارے انتخابی نظام کے تحت دریافت کرنا ممکن نہیں۔ اپنی ریاست کے طاقتور ادارے کی دیرینہ خواہش کے باوجود ہمارے عوام کی اکثریت ابھی تک صدارتی نظام قبول کرنے کو بھی آمادہ نہیں ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن کو ’اپنا‘ بنانے کے لیے تحریک انصاف کو ’قبل از وقت‘ انتخاب کے علاوہ کچھ اور سوچنا ہوگا۔

نصرت جاوید

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں