برطانیہ میں جاری سیاسی بحران تھم نہ سکا، وزیراعظم لِز ٹرس کا مستعفی ہونے کا اعلان

لندن (انمول نیوز) – برطانیہ میں جاری سیاسی بحران تھم نہ سکا، وزیراعظم لِز ٹرس کا مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا

لِز ٹرس نے کنزرویٹیو پارٹی کی سربراہی بھی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نئے وزیراعظم کے انتخاب تک ذمہ داریاں نبھاتی رہوں گی۔

لز ٹرس کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کا عزم لے کر وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔

6 ستمبر کو وزیراعظم بننے والی لزٹرس کو صرف ڈیرھ ماہ میں ہی سیاسی بقا کی جنگ کا سامنا ہے، ٹیکسوں کی کٹوتی پر فنانشل مارکیٹس اور حکومتی جماعت میں اٹھنے والا طوفان وزیر خزانہ کو برطرف کرنے سے بھی تھم نہ سکا۔

لِز ٹرس محض چھ ہفتوں تک وزارت عظمٰی کے عہدے ہر فائض رہیں، یہ کسی بھی برطانوی وزیراعظم کی مختصر ترین مدت ہے۔

لِز ٹرس سے قبل 1827 میں جارج کننگ صرف 119 روز تک وزیر اعظم رہے تھے۔

مستعفی وزیراعظم لِز ٹرس کا کہنا ہے کہ ایک ہفتےمیں کنزرویٹیو پارٹی کے نئے لیڈر کا انتخاب کیا جائےگا۔

انہوں نے کہا کہ جس مینڈیٹ کی بنیاد پر منتخب ہوئی تھی اسے ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی۔

حزب اختلاف لیبر پارٹی کے سربراہ سر کئیر اسٹارمر نے ملک میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔

برطانوی اخبارات کے مطابق حکومتی کنزرویٹو جماعت کے 100 سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے برطانوی وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور رواں ہفتے ہی پارٹی کمیٹی برائے لیڈرشپ نامزدگی، گراہم بریڈی کو عدم اعتماد کا خط لکھنے کیلئے تیار ہیں۔ کچھ حکومتی ارکان نے لزٹرس کو ہٹا کر نیا وزیراعظم لانے کیلئے خفیہ ملاقات بھی کی۔

خط میں حکومتی ارکان، کمیٹی کے سربراہ گراہم بریڈی پر لز ٹرس کو ہٹانے کیلئے زور دینگے، دوسری صورت میں پارٹی قوانین میں تبدیلی کرنے کا کہا جائے گا تاکہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جاسکے۔

دوسری جانب گراہم بریڈی حکومتی ارکان کی تحریک کی مخالفت کررہے ہیں، ان کا موقف ہے کہ وزیراعظم لز ٹرس اور جیرمی ہنٹ کو بجٹ پیش کرنے تک موقع ملنا چاہیے۔

ادھر ٹین ڈائوننگ سٹریٹ نے خبردار کیا ہے کہ ایسی تحریک کی صورت میں عام انتخابات کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں سیاسی و معاشی بحران جاری ہے اور ابتک 3 برطانوی وزیراعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں