تحریر ۔۔۔۔ عبداللہ طارق سہیل
شام میں انقلاب کو آئے مہینہ بھر ہو گیا لیکن ابھی تک خون کی وہ ندیاں نہیں بہیں جن کا مژدہ ہمارے یعنی پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بیٹھے دانشور اور تجزیہ نگار مسلسل سنا رہے تھے۔ نہ کوئی خانہ جنگی ہوئی، نہ ہزاروں افراد گروہ در گروہ تہہ تیغ کئے گئے۔ ہاں شمال مشرق کے علاقے میں ترک فوج کے حملے اور بمباریاں جاری ہیں۔ ترکی کردوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے جو وہ نہیں کر سکتا۔ چلئے، کوئی بات نہیں، طیب اردگان صاحب اپنا رانجھا راضی کر لیں۔ وہ خوش ، ہم خوش۔
باقی سارے ملک میں امن ہے اور جشن ہے۔ دمشق کے وسطی چوک میں لاکھوں اور لاکھوں عوام نے اجتماعی جشن منایا۔ ہمارے ہاں اپنے ہر جلوس کو دس لاکھ کا کہنے والی جماعتیں اتنا بڑا اجتماع کر لیں تو اسے ملین نہیں، بلین یعنی اربوں کا مارچ کہیں گی، شاید۔ مسئلہ البتہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی اربوں میںنہیں، کروڑوں میں ہے۔
ایک بات اور بھی ہوئی جس پر مغرب میں بھی اور کچھ کچھ ہمارے ہاں بھی تشویش ظاہر کی گئی۔ یہ کہ شامی حکومت کے وزیر اعظم محمد البشیر نے دمشق کی مرکزی جامع مسجد، مسجد امیہ میں جمعے کا خطبہ دیا۔ یہ بہت پہلے گزرے زمانوں کی روایت تھی کہ ریاست اسلامی کا امیر دارالحکومت کی مرکزی مسجد میں دیا کرتا تھا۔ پھر اسلامی ریاستیں رہیں نہ یہ روایت۔ اسلامی ممالک کی جگہ مسلم ممالک نے لے لی اور مسلم ممالک پھر سیکولر ریاستوں میں بدل گئے۔ اموی مسجد کو حزب اللہ نے برباد کر دیا تھا۔ ڈھانچہ برقرار رہا لیکن رنگ روغن اتار دیا، اینٹیں کہیں سے نکال دیں کہیں سے توڑ دیں۔ باہر سے بھی کھنڈر، اندر سے بھی کھنڈر۔ اب اس کی شکل و صورت پھر سے بحال کی جا رہی ہے، ماضی میں اس مسجد کی شان و شوکت ہی کچھ اور تھی۔
حزب اللہ اور ایران کے پاکستانی حامی ایک بہت ہی زبردست سوال پوچھ رہے ہیں کہ نئی حکومت کو آئے ہوئے اتنے ہفتے ہو گئے، اس نے اسرائیل پر کتنی گولیاں چلائیں۔ جواب کچھ یوں عرض ہے کہ بس اتنی ہی جتنی بشارالاسد کی حکومت نے چوتھائی صدی میں چلائیں۔ ایک کم، نہ ایک زیادہ۔
۔۔۔۔۔
دنیا میں جو نہیں ہوتا ہے، وہ پاکستان میں ضرور ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ یوٹیوب پر موجود ان گنت مذہبی چینل، ہر فرقہ کے، بلکہ مین سٹریم چینلز پر بھی مباحث کا در کھل گیا ہے کہ فتح شام قرب قیامت کی نشانی ہے۔ اب فلاں کا ورود ہو گا، اب فلاں کا، پھر یہ اور پھر وہ اور پھر سارے یہودی مارے جائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے مسلمان اتنے زیادہ مارے جائیں گے کہ میدان لاشوں سے پٹ جائیں گے۔
روایات کو ہر بحرانی دور میں قطعیت کے ساتھ منطبق پہلے ہی بھی بار بار کیا جاتارہا ہے اور ہر بار یہ مشق غلط نکلی۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ ارے بھئی، یہودی تب مار کھائیں گے اور ہاریں گے جب کوئی مسلمان ملک انہیں للکارنے کے قابل ہو گا یا کوئی ایسی تحریک اٹھے گی جو روکے سے نہ رکے گی۔ روایات کو زبردستی منطبق کر کے آپ لوگوں میں غلط فہمی پھیلا رہے ہیں، صرف پیسے کی خاطر ، اللہ سے ڈریں۔
حقیقت کیا ہے، اس دور کے دو بہت بڑے علمائے دین، مفتی کامران شہزاد اور علّامہ جا وید غامدی کے وڈیو لیکچرس سے آسانی کے ساتھ معلوم کی جا سکتی ہے۔ مفتی کامران شہزاد عمر کے لحاظ سے بزرگ نہیں ، جواں العمر کہا جا سکتا ہے لیکن علم اور تحقیق کے باب میں انہیں بزرگوں کا بزرگ کہنا چاہیے۔ بے پناہ ریسرچ ورک، حوالوں اور دلائل کے ساتھ، جوابی دلائل اور جوابی حوالوں کے ساتھ ۔
علامہ جاوید غامدی کا معاملہ دلچسپ ہے اور افسوسناک بھی۔ مدتوں بہت سے لوگ اور ان کے پیچھے پیچھے مجھ جیسے بھی، انہیں منکر حدیث سمجھتے رہے اور ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا نہ ان کے لیکچر سنے، بس غائبانہ فتوے دیتے رہے۔ پھر غلطی سے ان کا پروگرام سن لیا تو پتہ چلا کہ حدیث کے علم پر ان کا ریسرچ ورک اپنے معاصروں سے زیادہ ہے،کہیں زیادہ۔
خیر بحث کیا کرنی۔ زمانہ آخر، قرب قبامت اور ورود کی روایتوں پر ان دونوں حضرات کے لیکچر، سوال جواب کی محفلیں سماعت فرما لیں۔ بھلے ان کی بات مسترد کر دیں ، پھر بھی بہت کچھ کھل جائے گا۔ ویسے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اخیر زمانے میں علما دین کو دھندہ بنا لیں گے۔
_______________
شام کے بحران کے بعد سے ایرانی ریال کی قیمت میں طوفانی کمی ہوئی ہے اور ایک ڈالر ساڑھے سات لاکھ ریال کا ہو گیا ہے اور معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ چند ماہ تک یہی قیمتیں دس لاکھ ریال ہو جائے گی۔
1980ء میں ایک ڈالر 71 یا 72 ریال کا تھا۔ 72 ریال سے ساڑھے سات لاکھ کا حیران کن ، ناقابل یقین سفر ایران کے دفاعی اخراجات اور ناکام ترین معاشی پالیسی کا ثمر ہے۔ ایران نے اپنی سلطنت کو توسیع دینے کیلئے شام، لبنان اور یمن تک خود کو پھیلا لیا۔ تین عشروں کی محنت کا نتیجہ کیا نکلا؟۔ شام کی آزادی نے ایران کو عملاً اپنی جغرافیائی حدود میں پھر سے دھکیل دیا ے لیکن ڈالر تو ابھی اور مہنگا ہو گا۔ ایک ڈالر کے دس لاکھ ریال۔ توبہ ہے۔!
_______________
امریکہ نے پاکستان کے نئے بیلسٹک میزائل پر ناراض ہو کر چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ چار میں سے کم از کم ایک کمپنی سرکاری ہے۔ ابابیل نام کا یہ میزائل 22 سو کلو میٹر تک مار کرتا ہے اور ناراضگی کی بڑی وجہ یہی رینج ہے۔
بھارت نے اپنے ایٹمی اڈے بہت دور اپنے زیر قبضہ انڈیمان اور نکوبار کے جزیروںمیں بنائے ہیں تاکہ پاکستان کے جوابی وار سے محفوظ رہیں لیکن پاکستان نے ابابیل بنا کر بھات کی یہ کوشش بے کار کر دی۔ اب انڈیمان پاکستان کے نشانے پر ہے اور امریکہ کو اسی کا غصہ ہے۔
ان جزیروں کا بھارت اور برصغیر سے کوئی تعلق نہیں، یہ جزائر مشرق الہند یعنی جاوا، سماٹرا کا حصہ ہیں۔ مطلب انہیں انڈونیشیا پر قبضے میں ہونا چاہیے۔ انگریزوں نے ان جزیروں پر قبضہ کیا اور جاتے ہوئے بھارت کو تحفے میں دے گیا۔ پاکستا ن نے امریکی پابندیوں کی مذّمت کی ہے۔ بھارت اور پی ٹی آئی خوش ہیں ۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی خوشی تو بھارت سے بھی زیادہ اور بہت ہی قابل دید ہے۔
ان کے سوشل میڈیا پر تبصروں کے عنوان ملاحظ ہوں: امریکہ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر بم گرا دیا، مزہ تو اب آئے گا، عمران سرخرو ، پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی زبردست کامیابی، اب تو عمران کو رہا کرنا ہی پڑے گا۔
اسٹیبلشمنٹ کی ٹانگیں کاٹیں گئیں، دوڑیں لگ گئیں۔ اب بھگتو۔
آپ کیا کہیں گے؟ پی ٹی آئی کا اظہار مسرت اور اور جشن ناقابل فہم ہے،
جی نہیں جناب، آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ جشن پوری طرح قابل فہم ہے۔
بشکریہ ۔۔۔۔ عبداللہ طارق سہیل
شہباز شریف نے اسپین میں تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں 40 پاکستانیوں کے…
تحریر ۔۔۔۔نصرت جاوید ملالہ یوسف زئی گزرے ہفتے کے آخری دو دن اسلام آباد میں…
برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رکن پارلیمنٹ نے معافی کا جرم قبول کر…
درجنوں تارکین وطن کشتی کے ذریعے اسپین جانے کی کوشش میں گہرے سمندر میں حادثے…
وفاقی ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں کی کارکردگی کی رپورٹ جاری کردی۔ پہلے 5 ماہ…
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ بغیر کسی قصور کے 5 ماہ…