تحریر۔۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کئی ایک اقدام کئے بقول حکومتی ذمے داران کے ان اقدام کے باعث ملک کی اقتصادی صورتحال میں گزشتہ سال کی نسبت بہتری آئی۔ملک میں مہنگائی کی شرح میں 37.78فیصد کمی واقع ہوئی جو گزشتہ سال 4جنوری کو 42.86فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی اور کمی کے ساتھ 26 دسمبر کو 5.08فیصد کی سطح پر پہنچ گئی۔سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں 9فیصد کی کمی کی اور گزشتہ سال 29 جنوری کو پالیسی ریٹ جو 22فیصد تھا اسے 16دسمبر 2024کو 13 فیصد مقرر کر دیا۔ گزشتہ مالی سال 20 دسمبر کوحکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے بینکنگ سیکٹر سے قرضے نہیں لئے بلکہ 24 کھرب 21ارب 78 کروڑ روپے اس مد میں لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ادا کئے جبکہ گزشتہ مالی سال اتنی مدت کے دوران حکومت نے اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے بینکنگ سیکٹر سے27کھرب 32ارب 3کروڑ روپے کے قرضے لئے تھے۔ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں 51.6روپے کا اضافہ ہوا 3جنوری 2023 کو ایک ڈالر کی انٹر بینک میں قدر 226.9353روپے تھی جو 31 دسمبر 2024 کو 278.55روپے تک پہنچ گئی۔رواں مالی سال بیرون ملک پاکستانیوں نے رواں مالی سال نومبر تک 14.7ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائیں جو کہ گزشتہ مالی سال اتنی مدت کیلئے بھجوائی جانے والی 11.05ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے مقابلے میں 33.4 فیصد زائد ہیں۔ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں3ارب 69 کروڑ 83 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا اور ان کا حجم جو دسمبر 2023 کو 12ارب 67 کروڑ 32 لاکھ ڈالر تھا 20 اگست2024 کو 16ارب 37 کروڑ 15 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو گیا رواں مالی سال نومبر تک پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ 94.4کروڑ ڈالر سرپلس ہوا جو کہ گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے دوران 1.7ارب ڈالر خسارے میں تھا۔ملک میں رواں مالی سال نومبر تک بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 1.3ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو گذشتہ مالی سال میں اتنی مدت کے دوران 89کروڑ 48لاکھ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کے مقابلے میں 37.75کروڑ ڈالرزائد ہے۔روااں مالی سال ستمبر تک پاکستان کے ذمے مجموعی قرضوں اور ذمے داریوں کا حجم 85ہزار8سو36ارب روپے تک پہنچ گیا جو گذشتہ مالی سال میں اتنی مدت کے 78ہزار 4 سو 19 ارب روپے کے مجموعی قرضوں اور ذمے داریوں کے مقابلے میں 7ہزار4سو 17 ارب روپے زائد ہے۔رواں مالی سال میں نومبر تک ملک کی ایکسپورٹ کا حجم 13ارب 72 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اور امپورٹ کا حجم 22ارب 46 کروڑ 70لاکھ ڈالر رہا جبکہ گزشتہ مالی سال اتنی مدت کے دوران ایکسپورٹ کا حجم 12.2ارب ڈالر جبکہ امپورٹ کا حجم 21.5ارب ڈالر رہا۔ مجھے ان اعدادوشمار کی سچائی پر کوئی شک نہیں بس میرا حکومتی ذمہ داران سے ایک سوال ہے کہ ملک میں مافیا اور گراں فروشوں کے سدباب کیلئے کیا اقدام کئے گئے ہیں میرے پاس اس کی دلیل ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک سے ذیادہ مرتبہ شوگر ملوں پر سیلز ٹیکس کی خردبرد کا اظہار کر چکے ہیں۔میرا سوال اس لئے ہے کہ مافیا اس وقت وجود میں آتے ہیں جب وہ اداروں کی ملی بھگت سے ٹیکسوں کے خردبرد کرتے ہیں یا ملک میں بلیک اکانومی کا وجود قائم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بلیک اکانومی ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ
اقدام کئے گئے ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائی گیئں کاروبار کی ڈاکومنٹیشن کیلئے کوششیں کی گئیں لیکن حکومتوں کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔اس وقت عوام کوتو قدرے سستا آٹا مل رہا ہے لیکن کسانوں کو انکی گندم کی اعلان کردہ قیمت نہیں ملی اسی طرح گزشتہ سال حکومتی سطح پر چینی کی ایک کلو قیمت 98 روپے مقرر کی گئی اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اس پر صرف کچھ مدت تک عمل ہوا اس کے بعد شوگر مل مالکان نے قیمت پر اعتراض کیا اور عدالت سے رجوع کیا اور حکم امتناعی لے لیا جس کے بعد ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا اور اب تک لوگ ایک کلو چینی 140 سے 150 روپے میں خرید رہے ہیں۔میں نے اس مرتبہ بھی گنے کی کرشنگ کے موقع پر چینی کی صورتحال پر معلومات حاصل کرنی شروع کیں جن کی روشنی میں آگاہی ہوئی کہ شوگر ملیں کہہ رہی ہیں کہ اس سال شوگر ملوں کو گنا کم مل رہا ہے کچھ ملیں کین لیس بھی ہوئی ہیں ابھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن اگر چینی کی پیداوار طلب کے برابر یا طلب سے کچھ کم ہوئی تو چینی کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور اسکی قیمت 150 روپے کلو سے بڑھ سکتی ہے ۔ میں نے کسانوں سے بھی رابطہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں گنے کی کاشت کم رقبے پر ہوئی ہے اور اس وقت کسانوں نے ملوں کو گنے کی سپلائی روکی ہوئی ہے ملیں 350 روپے من قیمت بھی نہیں لگا رہی ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کم از کم گنے کی قیمت گزشتہ سال کے برابر 400 روپے تو ادا کریں ہماری ڈیمانڈ تو 500 روپے فی من تھی۔ ان معلومات سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے گزشتہ سال کے مقابلے میں اس لئے اگر طلب کے برابر بھی چینی پیدا ہوتی ہے تو چینی کی قیمت بڑھانے کیلئے کوششیں ضرور ہو گی ان دنوں بھی چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ملک میں ہر سال کسی نہ کسی وجہ کو بنیاد بنا کر عوام کو زائد قیمتوں پر چینی کی فروخت کی جاتی ہے اس مرتبہ دیکھتے ہیں کہ عوام کو چینی کس قیمت پر ملے گی۔
بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری