تحریر۔۔۔۔۔۔لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام
ہم جب سکول میں جانے کی عمر کو پہنچے تو اس سے پہلے کے دو سال اماں اور نانی اماں کی زبان سے لوریاں سنتے سنتے گزرے۔ میرا خیال ہے یہی وہ دور تھا جب میرے نہاں خانہء دل میں موسیقی کی پہلی رمق نے انگڑائی لی……
پھر جب سکول جانے کا زمانہ آیا تو اس دور میں پاک پتن میں ان مزارات کی کثرت تھی جن میں ہر برس عرس منعقد ہوتے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت بدر الدین اسحاق اور حضرت چن پیر کے عرس جب بھی آتے ہمارے لئے ایک عجیب سی سرخوشی لایا کرتے تھے۔ بابا فرید کا عرس سب سے طویل مدت کا ہوتا تھا۔25ذی الحج سے لے کر 10محرم تک کے دو ہفتوں میں پاک پتن میں خوب چہل پہل ہوتی تھی۔ سارے برصغیر کے قوال یہاں آتے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہم تقریباً ناشتہ کرنے کے بعد گھر سے نکل کر درگاہ کا رخ کرتے اور وہاں قوالیاں سننے کی دھن میں ا یک بے نام سی سرشاری کے احساس میں مبتلا رہا کرتے تھے۔ اس وقت معلوم نہ تھا کہ یہ سرشاری ہر بچے کے نصیب میں نہیں ہوتی۔یہ خدا کی وہ خاص عطا ہے جو بہت کم انسانوں کو ودیعت کی جاتی ہے۔
صبح تقریباً 9،10بجے درگاہ کے گدی نشین جن کو ”دیوان صاحب“ کہا جاتا تھا وہ ایک تخت پر سوار ہو کر گھر سے نکلتے اور درگاہ میں آجاتے۔ بابا فرید کے مدفن کا علاقہ رقبے کے لحاظ سے بہت تنگ اور محدود تھا (آج بھی یہی عالم ہے) اس کمرے کا اندرونی طول بمشکل دس فٹ اور عرض 7فٹ سے زیادہ نہ تھا۔دیوان صاحب سب سے پہلے بابا فرید کے مدفن کے اندر جاتے اور چند لمحوں کے بعد باہر نکل کر دہلیز پر بیٹھ جاتے۔ سامنے دو رویہ قطاروں میں زائرین بیٹھے ہوتے تھے۔ درمیانی فاصلہ تین چار گز کا ہوتا تھا۔ دیوان صاحب اور قوالوں کے درمیان فاصلہ 5،6گز کا ہوگا۔ قوالیوں کا دور شروع ہوتا تو میں کوشش کرکے قوالوں کے نزدیک کی کسی قطار میں گھس کر بیٹھ جاتا میری عمر کے لڑکے بالے شاید ہی وہاں آتے تھے۔ زائرین کا بے پناہ رش ہوتا تھا لیکن جب قوالی شروع ہوتی تو پِن ڈراپ خاموشی چھا جاتی۔ قوال الاپ شروع کرتے تو میں بالخصوص اس الاپ کے زیروبم میں کھو جاتا۔ یہ شاید میرے اندر موسیقی کی تانوں کو جذب کرنے کے آغاز کا دور تھا۔ …… قوال غزل کا پہلا مصرعہ اٹھاتے:
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
قارئین سوچتے ہوں گے کہ پانچ سات سال کے لڑکے کو ”چراغِ لالہ“ اور ”کوہ و دمن“کا مفہوم کیا خاک آتا۔ بس ان الفاظ کی ترکیب سے جو صوتی لہریں ترتیب پاتی تھیں وہ میری موسیقی والی پیاس کو سیراب کردیا کرتی تھیں۔
قوال غزل کا پہلا مصرعہ دھیمے سُروں میں اٹھاتے تھے اور دوچار منٹ تک اس مصرعہ کی ”رٹ“ لگائے رکھتے تھے۔ اس کے بعد ”ہیڈقوال“ اس مصرعہء اول کو نشیب سے اٹھا کر فراز کی تان میں تبدیل کر دیتا۔ باقی قوال پارٹی بھی اس کی پیروی کرتی اور میں بڑے غور سے سنتا رہتا کہ مصرعہء اول کے اس نشیب و فراز میں صوتی اثرات کے زیروبم کا سماں کیسے تبدیل ہوتا ہے۔ا گر آپ کو کسی غزل کے مطلع کے پہلے مصرعے کے مفہوم کا ہی علم نہ ہو تو پھر دوسرے کو کان لگا کر سننا چہ معنی دارد؟…… بس یوں سمجھ لیں کہ میری تفہیم موسیقی کا اولین درس یہی اتار چڑھاؤ ہوتا تھا…… دو چار منٹ کے بعد ہیڈقوال اس شعر کا دوسرا مصرعہ گاتا جو یہ ہوتا:
پھر مجھے نغموں پہ اکسانے لگا، مرغِ چمن
کچھ لمحوں کے بعد دیوان صاحب سر کو ایک ہلکی سی جنبش دیتے اور قوالوں کی یہ جوڑی اپنے ساز اٹھا کر نئی جوڑی کو جگہ دے دیتی۔ دریں اثناء زائرین میں سے لوگ اُٹھ اُٹھ کر نوٹوں کی ”نیاز“ دیوان صاحب کے گھٹنوں تک لے جاتے اور ایک قوال (ہیڈقوال نہیں) اس نوٹ کو لے کر واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ جاتا۔
میں دوپہر کا کھانا، کھانے کے لئے گھرچلا جاتا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ نیاز مند زائرین اپنی نیازیں زردے پلاؤ کی صورت میں تقسیم کرتے تو میں بھی ان میں حصہ دار بن جاتا……بس سارا دن اسی طرح گزرتا…… قوال حضرات تو رات گئے تک مزار کے احاطے کے مختلف حصوں میں قوالی کی محفلیں لگا کر بیٹھ جاتے تھے…… ان کا ہدف نوٹ اکٹھے کرنا ہوگا، لیکن میرا ہدف ”میوزیکل نوٹس“ اکٹھے کرنا ہوتا تھا!
کلاسیکل موسیقی کو ہم لوگ ”پکّے راگ“ بھی کہا کرتے تھے جن سے مجھے شدید نفرت نہیں تو کراہت ضرور ہوتی تھی…… ذرا بڑے ہوئے تو کلاسیکل موسیقی کی جگہ فلمی موسیقی نے لے لی۔ قوال حضرات بھی فلمی گیتوں کی طرز پر قوالیوں کے بول لکھواتے اور سامعین پر اپنا رنگ جماتے۔ ایک مثال سے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں …… اس دور میں کے ایل سہگل کا یہ گانا گلیوں میں گونجا کرتا تھا:غم دیئے مستقل، کتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا…… ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
قوالوں (یا ان کے دوست شعراء) نے اس دھن پر جو قوالی بنائی اس کے بول تھے:
خواجہ گنجِ شکر، ہو کرم کی نظر
ہوں دیوانہ…… رہے قائم ترا آستانہ
اس کے بعد کندن لال سہگل کے گانے کا انترا تھا:
کوئی میری یہ روداد دیکھے
یہ محبت کی بیداد دیکھے
جل رہا ہے جگر…… پڑ رہا ہے مگر
مسکرانا…… ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
اب قوالوں نے اس بند کا جو اتباع کیا وہ بھی دیکھ لیجئے:
جس نے اس دَر پہ گردن جھکائی
بن گیا وہ محبوبِ الٰہی
دیکھو کلیر میں جا…… جانے صابر پیا
کو زمانہ…… رہے قائم ترا آستانہ
اسی طرح اس دور کی دوسری فلموں کی مشہور دھنوں پربھی قوالیاں بنائی اور گائی جاتی تھیں۔ ان کا ذکر کروں تو کالموں کی قطاریں لگ جائیں گی۔
موسیقی اورشاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔مسجد میں قرآن شریف پڑھنے گئے تو سورۂ الحمد کی قرأت ایک ایسی تان محسوس ہوئی جس میں صوتی حسن بدرجہ کمال پایاجاتا تھا۔ پھر جب سارا قرآن پڑھا تو معلوم ہوا کہ سارے کا سارا قرآن ایک حسین اور دلکش ”الوہی صوتی ترانہ“ ہے جس کے مصرعے، قافیے اور ردیفیں حیران کن اور چشم کشا ہیں۔ آخری پارے کی ساری مختصر صورتیں دیکھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ کریم کے ہاں موسیقی کی پسندیدگی کا عالم کیا ہے۔
ہائی کلاسوں میں اردو نصاب کے حصہ ء نظم کی قرائت کرتے ہوئے موسیقی کی باریکیوں اور دوسری کی اداؤں پر لاتعداد صفحات لکھے جا سکتے ہیں یہ امر کچھ عربی، فارسی اور اردو پر منحصرنہیں۔ انگریزی زبان میں بھی شیکسپیئر سے لے کر بلکہ جان ملٹن کی Paradise Lost سے لے کر سوفٹ (Swift)کی منظومات تک شاعری اور موسیقی کا اٹوٹ بندھن پڑھنے اور محسوس کرنے کو ملا۔
اُس دور میں ہندوستانی اور پاکستانی فلموں کے نغمات بھی بڑے دلکش تھے۔نجانے 1940ء سے لے کر 1970ء کے چار عشروں میں موسیقاروں، گلوکاروں اور شاعروں کی یہ نسلیں کیسے اکٹھی ہو گئی تھیں۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی انڈین اور پاکستانی فلموں کے گانوں کی دھنیں دلوں میں اس طرح کُھب جاتی ہیں کہ تادیر ان کو گنگنانے میں زبان کو چٹخارے اور دل کو ایک اَن جانا سا سکون حاصل ہو جاتا ہے۔
موسیقی کی لگن کی یہ صفت خداداد ہے۔ ماہِ رمضان میں جو قاری حضرات قرآن سناتے ہیں، ان کے حافظہ کی داد اگرچہ قابلِ داد ہے لیکن اس میں ان حفاظِ کرام کی اس لگن کی بھی داد دینی چاہیے جس میں ان کا ذوقِ موسیقی موجود ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف نظم کے کسی شعر کے ایک مصرعے میں موسیقی کی بندش کا ایک نپا تلا نظام موجود ہوتا ہے بلکہ اچھی نثر کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا ہر فقرہ ایک ایسے مصرعہء نظم کی مانند ہوتا ہے جس میں بحرِ موسیقی کی امواج اگرچہ ٹھاٹھیں نہیں مارتیں لیکن موجزن ضرور ہوتی ہیں۔
موسیقی خواہ کلاسیکل ہو، نیم کلاسیکل ہو یا ایسی تانیں ہوں کہ جو لوک تانیں کہی جاتی ہیں، وہ کسی بھی ثروت مند (Rich) زبان کا بے بہا اثاثہ شمار ہوتی ہیں۔ برصغیر کی زبانوں کے شعری یا نثری ادب میں موسیقی کا یہ عنصر بدرجہء اتم موجود ہوتا ہے۔ میں تو یہ تک کہوں گا کہ کائنات کے ذرے ذرے میں موسیقی کے ملاپ کے ہزار رنگ موجود ہیں۔ طلوع و غروبِ آفتاب و ماہتاب اور سیاروں کی چمک دمک سے لے کر ان کی محوری گردش تک میں ایک طرح کا ترنم اور ردھم موجود ہے۔ آئن سٹائن اور دوسرے بڑے بڑے خلائی سائنس دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کو ردھم کا وافر شعور بخشا گیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس خدائی شعور کو مخالف سمت میں موڑنے کی انسانی کوشش کی تو گویا وہ ایک غیر فطری عمل تھا جس کی سزا انسان نے جوہری دھماکے کی صورت میں پائی۔ذروں کے باہمی انجذاب سے ہماری مادی زمین عبارت ہے۔ لیکن جب انسان نے اس ملاپ اور جذب کو تحلیل کرنے کی کوشش کی تو وہ دھماکہ ہوا جس کو ایٹمی دھماکے کا نام دیا گیا۔ موسیقی کے راگوں میں ایک دیپک راگ بھی ہے کہ جب وہ گایا جاتا ہے تو بجھے چراغ جل اٹھتے ہیں اور ان میں گویا آگ لگ جاتی ہے…… سوچتا ہوں کہ کیا اس دیپک راگ کو عظیم موسیقاروں نے گانے سے اس لئے منع کر دیا تھا کہ اس صوتی ترنم میں آتش پنہاں تھی۔ خدا نے اگر آب و آتش دونوں ہماری زمین پر پیدا کر دیئے ہیں تو کیا اس کا نوٹس لینا، نسلِ انسانی کی اولین ذمہ داری نہیں؟
بشکریہ ۔۔۔۔۔۔لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام