Categories: کالمز

سیاست ۔۔۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان ایک مروجہ سیاسی اور انتخابی عمل کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا اور پون صدی سے یہاں کسی نہ کسی صورت سیاسی عمل ہی کارفرما ہے ۔ یہ بھی ہمارے ہاں ایک رواج اور روایت بن چکی ہے کہ ہر کوئی سیاست اپنے فائدے اور اقتدار کے لیے کرتا ہے۔گویا سیاست ایک نفع بخش کاروبار یا سرمایہ لگا کر کئی گنا منافع کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ سیاست برائے ریاست یا برائے عوام بھی ہونی چاہیے تویہ بات ذرا عجیب لگے گی۔ ہم بہت سارا نقصان کر چکے ہیں اور اس سے زیادہ بھگت چکے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ سیاست کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے دائرے سے باہر نکل کر ملک کا مفاد مقدم رکھنا ہو گا ۔ اقتدار کی خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر طرح کا سیاہ و سفید کر گزرنا کوئی دانشمندی نہی۔ ایسا سب کچھ کر کے اگر اقتدار مل بھی جائے تو کس کام کا کیونکہ اقتدار جتنا بھی طویل ہو بالآخر ختم ہو جاتا ہے ۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو یہ بات اپنی جگہ 100 فیصد درست ہے کہ موجودہ حکومت بلا شبہ منجھے ہوئے تجربہ کار سیاسی رہنمائوں پر مشتمل ہے۔ گو ان سب کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے مگر ان کا تجربہ کئی جماعتوں کا ہے۔ اگر ملک کی مجموعی صورتحال کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ عوامی مسائل اس وقت سب سے زیادہ توجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔ پاکستان کا عام شہری کسی چیز سے مائل ہونے والا نہیں تاوقتیکہ اسے دو وقت کی روٹی کی فکر سے رہائی نصیب ہو جائے۔ حکومتیں بہت کچھ کرتی ہوں گی مگر مفت مشورہ ہے کہ فی الحال باقی تمام اَمور کچھ عرصے کے لیے یا تو موخر کر دینے چاہئیں یا پھر ان کو ترجیح کے اعتبار سے دوسرے یا تیسرے درجے پر رکھنا چاہیے کیونکہ گزشتہ انتخابات اور ان کے نتائج کے حوالے سے عام آدمی کے ذہن میں پائے جانے والے سوالات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا ۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کو بھی ماننا ہوگا کہ پی ٹی آئی ابھی تک چاروں صوبوں میں بلکہ گلگت بلتستان سمیت تمام علاقوں میں مقبولیت کے گراف کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ ان کا بیانیہ ایک ہی نقطے پر مرکوز ہے اور وہ ان کی اپنے بانی چیئرمین سے غیر مشروط محبت ہے جس کے لیے وہ ہر سطح تک جانے کو تیار ہیں۔ نو مئی سے لے کر چھبیس نومبر تک جتنے بھی احتجاج یا معرکے درپیش ہوئے ہیں تحریک انصاف کے کارکنوں نے کسی ایک جگہ پر بھی کمزوری نہیں دکھائی یہاں تک کہ معافی مانگ کر رہائی پانے والوں کے نظریات بھی جوں کے توں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے مسلسل عوامی رابطہ مہم اور عوام سے جڑے رہنایہ دو ایسے عوامل ہیں جن کا مقابلہ فی الحال کسی سیاسی جماعت کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں اپنا پورا زور لگا رہی ہے اور کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے جا رہے ہیں کہ معیشت پٹڑی پر چڑھ گئی ہے اور معیشت بہتری کی جانب بھی گامزن ہے۔ حالانکہ مہنگائی نے عام آدمی کو پہلے سے زیادہ پریشان کر دیا۔ فلاح عامہ کے بڑے بڑے منصوبے عام آدمی کی غربت میں کمی لانے سے قاصر ہیں۔ ایک سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی سے مقابلہ بھی ہے۔ ہمارے دو صوبے اس وقت دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ سیکورٹی ادارے اور افواج پاکستان پوری تندہی سے خوارج کا قلع قمع کرنے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔ انہیں بھرپور جانی و مالی قربانیاں بھی دینی پڑ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی حفاظت اور ملک میں استحکام لانا یہ کسی ایک کی ذمہ داری ہے یا ہر پاکستانی اس کا برابر ذمہ دار ہے۔ خطے کی جغرافیائی صورتحال اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کو بھی سامنے رکھنا ہو گا اور اندرونی سطح پر اپنی کارگزاری بھی بہتر بنانا ہو گی۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی کے ساتھ جس مذاکراتی عمل کا آغاز کیا ہے اسے دونوں طرف سے بیلنس رکھنا چاہیے۔ فریقین مذاکرات کے عمل میں ایسے مطالبات سے گریز کریں جن کا پورا کیا جانا کسی کے لیے بھی مشکل ہو۔ ابھی تو دو میٹنگز ہوئی ہیں اور کوئی واضح مطالبات بھی سامنے نہیں آئے البتہ ایسا لگتا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ملنے والا۔ دوسرے یہ کہ اپنے مطالبات میں کچھ عوامی ایشوز کو بھی شامل کریں تا کہ پتہ چلے کہ عوام کے نمائندے عوام کے لیے ہی مل بیٹھنے کو تیار ہوئے ہیں۔ اپنی ذات سے کچھ بلند ہو کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ذاتی مفاد بھی تب ہی پورا ہو گا جب ملک میں استحکام آئے گا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور گنجائش دینے کی روش کو سیاست کا حصہ بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ مذاکراتی عمل کسی کے لیے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکے گا۔ ان مذاکرات کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے کیونکہ ایک طر ف وفاقی و صوبائی حکومتوں کے باہمی تعلقات اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ ن سے مجبوراً اتحاد آئے روز نیا رنگ اختیار کرتا ہے ۔ پیپلز پارٹی سندھ میں روایتی طرز سیاست کو لے کر چل رہی ہے جو ان کی مستقبل کی کامیابیوں اور توقعات کے لیے کافی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی افراتفری کو افہام و تفہیم کے ساتھ ختم کرنا اور سیاسی تنائو کو کم کرنا سیاست دانوں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں کسی خفیہ ہاتھ یا اشارے کی طرف دیکھنا کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔ سیاست دان اپنے آپ کو توانا کریں اپنی سیاست کو عوام کے فائدے کے لیے استعمال کریں اور ملک کو مل جل کر آگے کی طرف لیکر چلیں۔

بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری

انمول اردو نیوز

Share
Published by
انمول اردو نیوز
Tags: akram chudry

Recent Posts

اسپین کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت، وزیراعظم نے رپورٹ طلب کرلی

شہباز شریف نے اسپین میں تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں 40 پاکستانیوں کے…

5 hours ago

دہشت گردی سے غافل ہم چسکے کے متلاشی لوگ

تحریر ۔۔۔۔نصرت جاوید ملالہ یوسف زئی گزرے ہفتے کے آخری دو دن اسلام آباد میں…

5 hours ago

برطانوی معطل رُکن پارلیمنٹ نے شہری پر تشدد کا جرم قبول کر لیا

برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رکن پارلیمنٹ نے معافی کا جرم قبول کر…

5 hours ago

اسپین؛ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 44 پاکستانی سمیت 50 افراد ہلاک

درجنوں تارکین وطن کشتی کے ذریعے اسپین جانے کی کوشش میں گہرے سمندر میں حادثے…

5 hours ago

رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ منفی ریکارڈ

وفاقی ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں کی کارکردگی کی رپورٹ جاری کردی۔ پہلے 5 ماہ…

8 hours ago

بغیر کسی قصور کے 5 ماہ جیل میں رہ کر آئی ہوں: مریم نواز

وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ بغیر کسی قصور کے 5 ماہ…

9 hours ago