0

پھر کہاں جائے گا

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل
ڈیڑھ دو ہفتے پہلے سائنس دانوں نے بتایا کہ ہماری کہکشاں کے ایک کواسار QUASAR (جس میں بہت سے بلیک ہول ہیں) میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ملا ہے اور یہ ذخیرہ کرہ ارض پر موجود تمام پانی سے 140 ٹریلین گنا زیادہ ہے۔ ٹریلین یعنی دس کھرب ، گویا زمین پر موجود پانی سے چودہ سو کھرب گنا زیادہ پانی۔ اس خبر پر ہمارے خودساختہ مذہبی سکالرز نے کئی پروگرام کئے اور بتایا کہ اللہ کا عرش اسی پانی پر تھا۔
قرآن پاک میں ہے کہ اللہ کا عرش پانی پر تھا (سورہ ھود)۔ یہی بات بائبل کی کتاب پیدائش کے شروع میں بھی ان الفاظ میں بتائی گئی کہ الہل کی روح پانی پر تھی۔ روح یا عرش سے مراد خدائی نظام کا مرکز یا ہیڈ کوارٹر بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ بات تو درست ہے کہ ابتدا میں پانی کے بسیط ذخائر تھے لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ کا عرش اسی پانی پر تھا جو کواسار نمبر اے پی ایم۔ 08279+5255 پر موجود ہے، بے خبری کے کمال کے سوا کچھ نہیں۔
زمین سے 14 سو کھرب گنا پانی، یہ اتنا بڑا حجم ہے کہ ہمارے اندازوں اور تصورات کی ٹنکی پھٹ جائے لیکن، کائنات کو چھوڑئیے، محض ہماری کہکشاں کے حجم میں یہ مقدار اتنی ہی ہے جتنی واٹر سپلائی کی بڑی ٹنکی میں کوئی رائی کا دانہ ڈال دے۔
اندازہ لگائیے، ایک کہکشاں میں کوئی ایک بلیک ہول نہیں ہوتا ہے۔ محض ہماری کہکشاں (سلکی وے) میں سو ملین بلیک ہول ہیں اور ان پر پایا جانے والا پانی قدیم نہیں ہے، یعنی ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ بلیک ہول کے اندر ہونے والے تعامل سے یہ پانی بنتا ہے۔ یعنی ہر بلیک ہول پانی بناتا ہے۔
100 ملین بلیک ہول تو محض ہماری کہکشاں میں ہیں۔ کہکشائوں کے الگ الگ حجم کے حساب سے یہ تعداد ان میں اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اور کائنات میں کتنی کہکشائیں ہیں؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ کائنات سے مراد کل کائنات نہیں، بلکہ ہم جب کائنات کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے اجرام فلکی اور کہکشائوں کا وہ مجموعہ مراد لیتے ہیں جو ہمارے آلات نے معلوم کئے ہیں۔ اور سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کائنات جہاں ختم ہوتی ہے (چاروں طرف سے) تو ہر طرف کھربوں نوری سال کے فاصلوں کے بعد کئی کائناتیں موجود ہیں۔
بہرحال ہماری کائنات یعنی معلوم کائنات میں کہکشائوں کی تعداد 20 کھرب ہو سکتی ہے۔ 20 کھرب کہکشائیں ، اوسطاً ہر کہکشاں میں 100 ملین بلیک ہول۔ (ایک کہکشاں میں 400 ارب سورج اور اس سے کئی گنا زیادہ زمین جیسے سیارے ہو سکتے ہیں۔ کواسار، نیبولاز، سورجوں،ذیلی سیاروں (چاند) اور شہابیوں کی تعداد الگ ہے) اللہ اکبر۔ کرہ ارض کے تمام انسانوں کا دماغ ملا کر ایک سپر برین بنا دیا جائے اور تمام کمپیوٹرز کو ملا کر ایک سپر کمپیوٹر میں سمو دیا جائے تو بھی یہ دماغ اور کمپیوٹر کائنات کے پھیلائوکا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اندازہ کیا، اندازے کو سمندر مان لو تو اس کا ایک قطرہ بھی نہیں ماپ سکتے۔ ایک کہکشاں ختم ہوتی ہے تو اوسطاً ایک لاکھ نوری سال پر محیط خلا آتا ہے۔ یہ خلا طے ہوتا ہے تو دوسری کہکشاں شروع ہو جاتی ہے۔
کائنات اتنی بڑی ہے کہ کھربوں سورجوں پر مشتمل ایک کہکشاں کی اس میں کوئی اوقات نہیں۔ ہر گلیکسی میں کھربوں سیارے ہیں، ہماری زمین کی کیا اوقات ہے، اس حقیر کائناتی ذرّے کی سطح پر انسان نامی مخلوق اپنی اوقات دکھاتی پھرتی ہے۔
قرآن میں یہی گواہی ہے کہ اسفل السافلین مخلوق یعنی انسانی ظالم بھی ہے اور جاہل بھی سوائے ان کے جو عقل کو استعمال کریں خلا پر ایمان لائیں اور اچھے کام کریں۔
______
لاہور میں ایک کمسن گھریلو ملازم، 14 سالہ بچے کو اس کے مالک ساجد نے مسلسل تشدد کر کے قتل کر دیا۔ اس کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ قاتل ماجد فرار ہے۔
گرفتار ہو بھی گیا تو چھوٹ جائے گا۔ ضمانت تو پہلی فرصت میں مل جائے گی۔ ہمارا نظام عدل و انصاف شروع سے قاتلوں کا ہمدرد اور سہولت کار رہا ہے۔ گھریلو ملازموں کے قتل میں پاکستان دنیا بھر میں اسی وجہ سے ’’نمبر ون‘‘ ہے۔ ہر تیسرے روز ایسے کسی ملازم بچے یا بچی کے قتل کی خبر آتی ہے اور یہ خبریں ہمارے میڈیا کیلئے ’’نان اشوز‘‘ ہیں۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ، نظام حکومت کا کوئی کل پرزہ ایسی خبروں پر غور نہیں کرتا۔
گھریلو ملازم بچے دس ہزار روپے مہینے پر دن میں، عملاً 24 گھنٹے کی نوکری کرتے ہیں، انہیں کوئی چھٹی نہیں ہوتی ہے۔ قرون مظلمہ کے غلاموں کی زندگی ان سے کہیں بہتر تھی۔
ایک بھی سیاسی، مذہبی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے اس برائی کو برائی سمجھا ہو۔ چنانچہ یہ قتل تو ہوتے رہتے ہیں۔ آنے والے زمانوں کا مورخ قدیم دور کی تاریخ لکھے گا تو پاکستان کا ’’ثقافتی ورثہ‘‘ اسی کلچر کو قرار دے گا۔
______
اڈیالہ کے گدّی نشین مرشد نے گزشتہ روز الزام لگایا کہ وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف حافظ عاصم منیر کے اردلی ہیں۔
یہ الزام ایک قسم کا دعویٰ ہے جو ثابت ہونا ہے، لیکن جو بات ثابت ہو چکی وہ یہ ہے کہ اڈیالہ کے گدّی نشین مرشد خود جنرل فیض کے ’’اردلی‘‘ رہ چکے ہیں۔ جب جنرل فیض کی نوکری ختم ہوئی تو مرشد کی ’’اردلیت‘‘ بھی انجام کو پہنچی۔ اس ماجرے کو بیتے دو سال سے اوپر کا عرصہ ہو گیا لیکن مرشد اس کے صدمے سے ابھی تک باہر نہیں آئے۔ رات دن اڈیالہ سے شور فغاں بلند ہوتا ہے، آہِ سرد سے اردگرد کی فضا کا درجہ حرارت اور گر جاتا ہے۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ خواں کو میں کے مصداق مرشد کی جماعت کو چاہیے کہ ایک آدھ رودالی (کرائے پر رونے والی خاتون) کا بندوبست کریں اور مذاکراتی عمل میں حکومت سے یہ مطالبہ منوائیں کہ رودالی کو اڈیالے میں قیام کی اجازت دیں۔ تاکہ مرشد کا رونا دھونا کم ہو۔
______
پی ٹی آئی نے فوجی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اسے تقدیری امر سمجھئے کہ کامیابی نہیں ملی۔ چنانچہ اس پر برا فروختہ ہو کر پی ٹی آئی کے بازوئے بارود زن یعنی ٹی ٹی پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ مصنوعات بنانے والے اداروں پر حملے کرے گی۔
تقدیری امر کچھ یوں لگتا ہے کہ بازوئے بارود زن کے مقدر میں بھی مطلق ناکامی لکھی ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے بارود ونگ سے سوال ہے کہ حضرت، حتمی ناکامی کے بعد کہاں جائیے گا، بتلا دیجئے۔
بشکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں