Categories: کالمز

دہشت گردی سے غافل ہم چسکے کے متلاشی لوگ

تحریر ۔۔۔۔نصرت جاوید
ملالہ یوسف زئی گزرے ہفتے کے آخری دو دن اسلام آباد میں منعقد ہوئی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان تشریف لائیں۔ مجھے ان کی آمد کی خبر ملی تو توقع باندھ لی کہ مذکورہ کانفرنس سے خطاب کے بعد وہ اپنے آبائی شہر سوات جائیں گی۔ اسی سکول میں جہاں ان پر حملہ ہوا تھا بچیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیغام دیں گی کہ تعلیم کے حصول کے لئے خواتین کو دہشت گردوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کے ’’جرم‘‘ میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ حملے کی شدت نے ان کی موت کو تقریباََ یقینی بنادیا۔ ربّ کریم کی مہربانی سے مگر وہ بچ گئیں۔ پاکستان سے انہیں ہنگامی حالات میں علاج کے لئے برطانیہ بھیجا گیا۔ وہاں جدید ترین سہولتوں اور طبیبوں کی مشاقی کے سبب وہ صحت یاب ہوگئیں۔ صحت یابی کے بعد برطانیہ ہی کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے سے ڈگری حاصل کی۔ انہیں ثابت قدم بہادری کی وجہ سے نوبل انعام بھی ملا ہے۔ ان دنوں دنیا بھر میں بچیوں میں تعلیم کے فروغ کا پیغام اجاگر کرنے کی علامت تصور ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں ایک اہم ترین پیغام پہنچانے کا موثر ترین وسیلہ ہوئی ملالہ یوسف زئی سے مجھے امید تھی کہ وہ پاکستان میں منعقد ہوئی کانفرنس میں شرکت کے بعد اپنے آبائی علاقے سوات کے علاوہ یہاں کے دیگر بڑے شہروں اور قصبوں میں جاکر بچیوں کے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کریں گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ اسلام آباد میں منعقد ہوئی کانفرنس کے عین دوسرے روز وہ برٹش ایئرلائنز کی پیر کی صبح لندن روانہ ہونے والی پرواز کے ذریعے پاکستان سے رخصت ہوگئیں۔
ملالہ یوسف زئی کی اس دھرتی کی بیٹی ہونے کے بجائے بین الاقوامی طورپر مشہور ہوئی سیلبرٹی کی طرح پاکستان آمد اور رخصت نے مجھے حیران وپریشان کردیا۔ اپنے ٹی وی پروگرام اور اس کالم میں طیش سے ہذیانی ہوا میں ملالہ یوسف زئی کی سخت ترین الفاظ میں تنقید کو مجبور ہوگیا۔ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین صاحب نے اس کے باوجود بڑا دل دکھایا۔ کبھی ٹویٹر اور اب Xکہلاتے پلیٹ فارم پر ایک پیغام لکھا۔ مذکورہ پیغام میں مجھے ’’پیارے اور محترم نصرت جاوید صاحب‘‘ پکارتے ہوئے ضیاء الدین صاحب نے اطلاع دی کہ 2018ء کے برس جب ملالہ یوسف زئی پاکستان آئیں تو کچھ دنوں کے لئے سوات بھی تشریف لے گئی تھیں۔ اس مرتبہ ان کی بہت خواہش تھی کہ کانفرنس میں شرکت کے بعد وہ اپنے والدین کے آبائی قصبے شانگلہ میں کچھ دن گزاریں۔ سکیورٹی کے خطرات کے سبب مگر انہیں کلیئرنس (اجازت) نہیں مل پائی۔ ضیاء الدین صاحب نے تو یہ دعویٰ نہیں کیا۔ ان کی تحریر سے لیکن میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کو مجبور رہا ہوں کہ شاید شانگلہ جانے کے امکان معدوم ہوجانے کی وجہ سے ملالہ یوسف زئی دلبرداشتہ ہوکر اسلام آباد میں منعقد ہوئی کانفرنس ختم ہونے کے عین ایک دن بعد لندن واپس لوٹ گئیں۔
وجوہات کچھ بھی رہی ہوں ملالہ یوسف زئی کا طویل وقفے کے بعد اپنے وطن آنے کے دو دن بعد ہی یہاں سے رخصت ہوجانا اذیت دہ پیغام یہ دیتا ہے کہ 2008ء سے جاری بارہا فوجی آپریشنوں کے باوجود پاکستان ابھی تک ایک ’’نارمل‘‘ ملک نہیں بن پایا ہے۔ ہمارے دو اہم صوبوں -خیبرپختونخواہ اور بلوچستان -میں دہشت گردی بلکہ واپس لوٹ رہی ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے وادی کرم کا انتہائی خوبصورت شہر پارا چنار پاکستان سے کٹا رہا ہے۔ اسے ہم سے ملانے کو صرف ایک راستہ ہے جو ٹل-کوہاٹ روڈ کہلاتا ہے۔ 80کلومیٹر لمبی یہ سڑک 80سے زیادہ دنوں تک کاملاََ بند رہی۔ اس کی دونوں اطراف متحارب گروہوں کے قبضے میں ہیں جو جدید ترین اسلحہ سمیت حالت جنگ میں گھرے فوجیوں کی طرح پہاڑوں میں بنکر بنائے ’’دشمن‘‘ کو نقل وحرکت کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق ان بنکروں کی تعداد 273کے قریب ہے۔
تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر لمحہ باخبر رکھنے کا دعوے دار میڈیا وادی کرم میں چھڑی مسلکی جنگ کو قطعاََ نظرانداز کرتا رہا۔ سرکار کے دئیے ڈیکلریشن اور لائسنس کی بدولت چلائے روایتی میڈیا کی وادی کرم کے حالات کے بارے میں خاموشی کسی حد تک سمجھی جاسکتی ہے۔ہمیں مگر بے شمار دانشور بہت فخر سے یہ بتاتے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ’’بکائو اور بزدل‘‘ میڈیا کو فارغ کردیا ہے۔ اپنے کئی ہم عمر ساتھیوں کے برعکس میں سوشل میڈیا پر بھی مناسب توجہ مبذول رکھتا ہوں۔ وہاں چھائے ’’ذہن سازوں‘‘ میں سے کسی ایک نے بھی وادی کرم نہ سہی وہاں کے قریب ترین شہر کوہاٹ پہنچ کر ہمیں وہاں کے حالات کو ذمہ دارانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔
پارا چنار کے دْگرگوں حالات کے مقابلے میں کراچی یا لاہور جیسے کسی بڑے شہر کی اہم سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجائے تو بینڈ باجہ بارات کے ساتھ بریکنگ نیوز کے پھٹے ٹی وی سکرینوں پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پارا چنار کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ پانچ لاکھ افراد انسان اور پاکستانی ہیں۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذمہ دار‘‘ یا ’’حق گو‘‘ صحافی پاکستانیوں کو مگر بتا ہی نہیں پائے کہ تین سے زیادہ مہینوں سے سردی کے شدید موسم میں ہزاروں افراد بے گھر ہوئے کھلے آسان تلے کپکپارہے ہیں۔ پارا چنار کو پاکستان سے ملانے والی سڑک بند ہونے کے سبب اس شہر میں قحط کا عالم ہے۔ زچگی کے دوران بچوں اور اکثر ان کی مائوں کی اموات خطرناک حدوں کو چھوتی رہیں۔ ادویات کی کمیابی بھی ناقابل یقین ہے۔ چند افراد اس وجہ سے بھی جاں بحق ہوگئے کہ کینسر کے علاج کیلئے بروقت ہسپتال نہ پہنچ پائے۔
پارا چنار کے حالات پر غور کرتا ہوں تو سنجیدگی سے یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم دہشت گردی ا ور اس کی وجہ سے ہوئی ہلاکتوں کے بارے میں متفکر ہیں بھی یا نہیں۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے اکثر نفی میں جواب ملا۔ نفی کو ذہن میں رکھوں تو خیال آتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے سوات نہ جانے پر میں شاید بلاجواز مشتعل ہوگیا۔ منیر نیازی کا ’’مل بھی گیا تو کیا ہوگا‘‘ یاد آتا ہے اور یہ خیال بھی کہ طویل جلاوطنی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2007ء میں کراچی تشریف لائیں تو ان کے کاررواں پر خوفناک دہشت گرد حملہ ہوا۔ محترمہ کو اس کے بعد دوبئی لوٹ جانا چاہیے تھا۔ وہ مگر وہاں اپنے بچوں سے مل کر فوراََ پاکستان آگئیں۔ عوام سے رابطہ جاری رکھا۔ ان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا عہد باندھتی رہیں۔ انہیں مگر ایک اور دہشت گرد حملے کے ذریعے قتل کردیا گیا۔ ان کے قتل نے ہمیں جھنجھوڑا نہیں۔ اے پی ایس کے بچوں کی وحشت ناک شہادتیں بھی ہم فراموش کرچکے ہیں۔ ہم چسکے کے متلاشی لوگ ہیں۔ ٹک ٹاک سے دل پشور ی کرنے والے۔ دہشت گردی کو سنجیدگی سے لینے کے قابل ہی نہیں۔ ملالہ یوسف زئی پاکستان کے حوالے سے شاید درست وجوہات پر ہم سے اجنبی ہوگئی ہیں۔

بشکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید

انمول اردو نیوز

Share
Published by
انمول اردو نیوز
Tags: nusrat-javed

Recent Posts

اسپین کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت، وزیراعظم نے رپورٹ طلب کرلی

شہباز شریف نے اسپین میں تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں 40 پاکستانیوں کے…

4 hours ago

برطانوی معطل رُکن پارلیمنٹ نے شہری پر تشدد کا جرم قبول کر لیا

برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رکن پارلیمنٹ نے معافی کا جرم قبول کر…

4 hours ago

اسپین؛ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 44 پاکستانی سمیت 50 افراد ہلاک

درجنوں تارکین وطن کشتی کے ذریعے اسپین جانے کی کوشش میں گہرے سمندر میں حادثے…

4 hours ago

رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ منفی ریکارڈ

وفاقی ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں کی کارکردگی کی رپورٹ جاری کردی۔ پہلے 5 ماہ…

7 hours ago

بغیر کسی قصور کے 5 ماہ جیل میں رہ کر آئی ہوں: مریم نواز

وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ بغیر کسی قصور کے 5 ماہ…

8 hours ago

نیند کے دوران مفلوج ہوجانے کا احساس، اسباب و علاج

نیند میں جُزوی طور پر جاگنا اورنیم بیداری میں مفلوج ہونے کا احساس ہونا، اسے…

8 hours ago