سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ مجھے بھی ججز کمیٹی کے اجلاس کا علم نہیں تھا حالانکہ میں کمیٹی کا ممبر ہوں۔سپریم کورٹ میں آئینی بنچوں اور ریگولر بنچوں کے اختیارات کے معاملے پر بیرسٹر صلاح الدین جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ میں کراچی سے آیا ہوں، کیس کی آج سماعت کا شیڈول نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا پتہ لگاؤں گا۔ مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی، ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ ذوالفقار علی عدالت میں پیش ہوئے، اور عدالت کو بتایا کہ ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ڈپٹی رجسٹرار نے کہا کہ ججز کمیٹی کے اجلاس کا فیصلہ فائل کے ساتھ منسلک ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیسز ہمارے سامنے سماعت کے لیے مقرر تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم چائے خانے میں بیٹھے ہیں، ججز کمیٹی کے اجلاس کے منٹس اور کیسز تبدیل کرنے کی تفصیلات بتائیں، ججز کمیٹی کے اجلاس کے منٹس بھی ساتھ لائیں، وہ ہمیں بتائے گا. ہم عدالت میں واپس آئیں گے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، توہین عدالت کے تحت ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو شوکاز نوٹس جاری کردیا، عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل ذاتی طور پر پیش ہو کر وضاحت دیں۔ پہلے تو جنوری کو عدالت نے ہدایت کی تھی کہ کیس کی سماعت 20 جنوری کو ایک بجے مقرر کی جائے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے حکم نامے میں کہا تھا کہ کیس کو اسی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ آج کیس کی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔ ہمیں سپریم کورٹ آفس کی طرف سے بتایا گیا کہ ججز کمیٹی نے مذکورہ کیس کو 27 جنوری کو آئینی بنچ کے سامنے رکھا ہے۔ ججز کمیٹی کے اجلاس کے میٹنگ منٹس جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا ابھی تک دفتر کو موصول نہیں ہوا۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ 16 جنوری کے عدالتی حکم کی موجودگی میں عدالتی حکم کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بنچ کے سامنے ٹیکس سے متعلق تمام کیسز بھی ختم کر دیے گئے، عدالت کو بتایا گیا کہ اب ایک ریسرچ آفیسر کون سے کیسز آئینی بنچ کے پاس جائیں گے فیصلہ کریں گے، ججز کمیٹی نے عدالتی حکم کو نظر انداز کر دیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی ریسرچ آفیسر بتائے کہ کون سا کیس کہاں طے ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس انتظامی کمیٹی کے پاس گیا، جسٹس عرفان سعادت مصروف ہیں تو کوئی اور بنچ میں آئے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کمیٹی کو خود کیس منتقل کرنے کا اختیار نہیں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت یہ بنچ آئینی بنچ کے پاس جائے گا۔ یہ بحث ہماری عدالت میں ہو سکتی تھی۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ صحافیوں کا بھی ایک کیس تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک چیف جسٹس دو تین دماغوں سے کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔ ہو گیا، پورا کیس غائب ہو گیا، ججز کمیٹی چاہتی تو پورے بینچ کی تشکیل نو کر سکتی تھی۔
حلف برداری کی تقریب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر…
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ پاکستان کو جنگ میں…
پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر ہے، استغاثہ اپنا مقدمہ…
لندن: 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کیس میں پیش رفت ہوئی ہے۔غیر ملکی میڈیا…
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے وقت اپنا بایاں ہاتھ بائبل…
اپنے حلف برداری کے پہلے دن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن…