Categories: کالمز

مسلم لیگ اور تحریک انصاف محازآرائی کے لیے صف آراء

تحریر ۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
دونوں جماعتیں مزاکراتی عمل کے دوران خاموشی کے بجاے مختلف سیاسی محازآرائی کے اقدامات میں مصروف عمل نظر آتی ہیں اور دونوں جماعتوں کے رہنما سخت جملوں کے تبادلے اور الزامات میں مصروف عمل ہیں۔
امریکہ کے دارلحکومت میں عمران خان اور اسامہ بن لادن کی تصاویر سے مزیں ڈیجیٹل تشہیری مہم جاری ہے جو عمران مخالف امریکی سیاسی کارکن کر رہے ہونگے اور مولانا فضل الرحمن بھی ان بیانات میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور کے پی کے کی حکومت کی ناکامیوں اور امن امان خاص طور پر کرم کے واقعات کے حوالے سے اور تحریک انصاف کی حکومت کی کرپشن اور کمیشن کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیںیہ تمام معاملات کو سنوارنے کے بجائے بگاڑنے کیلئے کیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف بھی 8 فروری کو یوم سیاہ منانے اور بھرپور احتجاج کے اعلانات کر رہی ہے اور اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے اور حکومتی نیتوں اور الزامات کو اجاگر کرنے میں مصروف عمل ہے۔
کیا ان اقدامات سے مزاکراتی عمل آگے بڑھ پائے گا یا یہ ناکامی کی طرف جائے گاگزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات:
پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد ہی دونوں طرف سے کہیں لچک دکھائی گئی ہے تو کہیں ایک بداعتمادی کی فضا کا تاثر بھی ابھرا ہے۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دوسری بیٹھک دو جنوری کو ہو گی۔ہوتے ہوتے جنوری کے تیسرا ہفتہ اس عمل کو مکمل کر پایا جس میں تحریک انصاف نے تحریری مطالبات حوالے کئے۔
مگر اس سے قبل ہی دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ معاملات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے ایک نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئے گی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور 23 دسمبر کو ہوا تھا جس میں حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور اجلاس میں شامل نہیں تھے۔
اجلاس کے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا تھا جس میں حزب اختلاف ’’اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دے گی‘‘جو 2 جنوری کو ہو پایا۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اجلاس سازگار ماحول میں ہوا اور دونوں اطراف نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
دو جنوری کو دوسرے اجلاس سے قبل دونوں سیاسی جماعتیں اپمی اپنی حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔ سابق سپیکر اور رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کے دوسرے اجلاس میں حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کرنے کا کہا ہے۔
اسد قیصر کے مطابق جو دو مطالبات پیش کئے جائیں گے ان میں سر فہرست عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی ہے جبکہ دوسرا مطالبہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ہے۔لیکن جب مطالبات پیش کئے گئے تو ایک طویل فہرست دی گئی جو ثابت کرتی ہے کہ ابھی کسی حتمی مطالبے کا تعین ممکن نہیں ہے۔
اس سے قبل عمران خان کی بہن علیمہ خان بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں کہ عمران خان سے ملاقات میں انھوں نے ان سے دو مطالبات پیش کرنے سے متعلق بات کی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان کی جماعت کے چار مطالبات تھے جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ ، جمہوریت اور آئین کی ’’بحالی،‘‘چوری شدہ مینڈیٹ‘‘ کی واپسی اور تمام ’’بے گناہ‘‘ سیاسی قیدیوں کی رہائی۔
واضح رہے کہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں وزیرِ اعلیٰ امین گنڈاپور کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات بانی چیئرمین کی رہائی سے شروع ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔انھوں نے کہا تھا کہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے۔مگر مزاکرت جس ماحول میں ہوئے اور اس سے اگلے دن 190 ملین کا کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا بہر حال جس میں سزا کا فیصلہ اور کرپٹ پریکٹس کا جرم ثابت ہونے پر سنایا اب مزاکرات کس طرف بڑھتے ہیں اس کا تمام تر دارومدار اب دونوں جماعتوں کی سیاسی قیادت اگر ان معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تو تحریک انصاف پھر احتجاج کا راستہ اپنانے کی طرف بڑھے گی جو ملک کی معاشی صورتحال اور ملک کے عوام کی معاشی بد حالی میں اضافے کی وجہ بنے گا۔
اور معاملات ایک بار پھر مشکل کا شکار ہوں گے دونوں جماعتوں اور ملک کے سیاسی اکابرین کو ان تمام امور پر غور کرنا چاہیے اور ملک کے بڑوں کو معاملات کو بگڑنے سے بچانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے یہی ملک کی ضرورت ہے غور کیجیے اور اہمیت کے مطابق حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف اپنے سیاسی دور کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی ہے اور ریاست اور سیاست دونوں کا ادراک رکھتے ہوئے مستقبل کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری

انمول اردو نیوز

Share
Published by
انمول اردو نیوز
Tags: akram chudry

Recent Posts

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم فیصلوں پر دستخط کر کے انتظامی امور کا آغاز کر دیا

حلف برداری کی تقریب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر…

1 hour ago

افغان مسئلے کے حل کے لیے علی امین گنڈا پور کا بڑا اعلان

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ پاکستان کو جنگ میں…

2 hours ago

پی ٹی آئی کا القادر ٹرسٹ کیس فیصلے کیخلاف اہم اقدام ،کیا کرنے والے ہے ؟جانیں

پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر ہے، استغاثہ اپنا مقدمہ…

2 hours ago

ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا حلف لیتے وقت بائبل پر ہاتھ نہیں رکھا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے وقت اپنا بایاں ہاتھ بائبل…

2 hours ago

امریکی صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ کے بڑے بڑے فیصلے

اپنے حلف برداری کے پہلے دن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن…

2 hours ago