تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمیراگل
بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی نہایت عقیدت و احترام سے ملک بھر میں منائی جا رہی ہے مجھے یاد ہے وہ اکتوبر 2007 ء کا دن جب بی بی شہید ایک طویل جلا وطنی کاٹ کر واپس آئیں تھیں ہم بھی بہت جوش و جذبے سے انکا استقبال کرنے کراچی پہنچ چکے تھے۔ہم راولپنڈی کی 5 خواتین جن میں دو ممبر پنجاب اسمبلی بھی تھیں۔ہمیں کراچی میں ڈیفنس کے صدر کے گھر پر بطور مہمان ٹھرایا گیاویسے بھی سندھ بھر میں مہمان نوازی کا کلچر بہت مضبوط ہے ۔ سندھی ملک بھر سے آئے ہوئے بھٹو شہید اور بی بی شہید کے چاہنے والے جیالوں کو بہت عقیدت و احترام سے اپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں سب اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق مہمانوں کی مہمان نوازی دل سے کرتے ہیں ۔ھم دو دن صدر ڈیفنس کے گھر ٹھہرے پھر 18اکتوبر کا دن آ گیا میزبان نے گاڑیاں فراہم کیں اور ہم ناشتہ کرکے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے ۔ یہ شاہرہ فیصل تھی جس پر گاڑیوں سے زیادہ پیدل چلنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ملک بھر سے جیالے جیالیاں وہاں موجود تھے۔ مجھے 1986ء کا تاریخی استقبال براہ راست کو دیکھنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔بس تاریخ ساز استقبال کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ محترمہ شہید کو خوش آمدید کیسیکیا گیا تھا۔ اس کا گواہ تو عالمی میڈیا بھی ہے۔ آج جب میں نے بہت سے لوگ بہت سے جھنڈے ایک ساتھ دیکھے تو میں اس استقبال کو محسوس کر سکتی تھی کہ کیسا ہوگا ۔ہم دو سے چار گھنٹے قافلے مٰیں خراماں خراماں چلتے رہے اور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ سیکورٹی کے سخت اقدامات تھے ۔ملک میں جنرل مشرف اور کی جماعت ق لیگ کی حکومت تھی اندر جانے کی اجازت کسی کو نہ تھی مگر میں مختلف طریقے استعمال کرکے ایئر پورٹ کے مین گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ پولیس والے صرف ممبران اسمبلی کو اندر جانیکی اجازت دے رہے تھے۔ اور وہ بھی ایم این اے فوزیہ وہاب صاحبہ کی اجازت کے بعد میں نے اپنے فون سے سیکورٹی انچارج کی بات باجی فوزیہ حبیب صاحبہ سے کروا دی انہوںنے اندر جانے دیا ۔ چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد بی بی شہید ایک شہزادی کی طرح وی آئی پی لاونج میں سے باہر نکلیں۔ھم سے ملاقات کی ہمارے گروپ میں باجی بیلم حسنین ، روبینہ قائم خانی ، باجی عذرا بانو، صبیحہ سید اور سندھ کی دو ایم این اے بھی تھیں۔ ہم نے اپنی قائد کو قریب سے دیکھا انھیں ںہمارے سامنے بلٹ پروف گاڑی پر سوار کیا گیا۔وہ قرآن کے سائے میں سوار ہوئیں اور انھیں امام ضامن بھی باندھا گیا۔ پھر ہم سب اپنی گاڑیوں پر سوار ہو کر بی بی شہید کے قافلے میں شال ہو گئے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوا رات کے گیارہ بجکر تیس منٹ پر بم دھماکہ ہو گیا سینکڑوں کارکنوں کی شہادتیں ہو گئیں بی بی کے جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے خوش قسمتی سے بی بی شہید اس حادثہ میں بچ گئیں۔ انھیں اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ اب ڈر کر اپنے گھر میں بیٹھ جائیں مگر وہ بینظیر بھٹو تھی وہ بے مثال تھی ۔ اس کی شخصیت اور تربیت میں ڈرنے کا کوئی ذکر نہ تھا وہ اسی دن زخمی کارکنوں اور شھداء کے اہلخانہ کو دلاسے دیتے دکھائی دیتی ہیں اور سر عام پبلک میں آ کر پریس کانفرس کرتی ہیں ۔جس کے ذریعے انتظامیہ کو واضح پیغام دیتی ہیں کہ وہ نہ ڈرنے والی اور نہ ہی جھکنے والی ہیں وہ بینظیر اور بہادر لیڈر ہے ۔پھر27 دسمبر تک وہ ایک دن بھی گھر میں نہیں بیٹھیں بلکہ چاروں صوبوں میں سیاسی سر گرمیاں جاری رکھتی ہیں ۔انتخابی مہم کا آغاز ہو جانا اور جنرل صاحب کو مجبوراً وردی اتارنا پڑ جاتی ہے اور بی بی شہید کے ملک سے باہر جانے پر ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد بھی وہ پر عظم واپس لوٹ کر ایک جابر اور آمر حکمران کا سامنا کرتی ہے۔ وہ بلوچستان کے بگٹی رہنما کی تعزیت کیلئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر چلی جاتیں ہیں اور دھماکہ سے زندہ بچ کے عوام کے پاس آ جاتیں ہیں۔ پھر 27 دسمبر کی خون آلود شام آ جاتی ہے اور انتخابی مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ڈویثرن کے امید واروں کیلئے لیاقت باغ میں جلسے کا انعقاد کرواتی ہیں جس میں مجھے بطور عہدیدار جنرل سیکرٹری شعبہ خواتین راولپنڈی سٹی حکم ملتا ہے کہ اس جلسے میں خواتین کی بھرپور شرکت کروانی ہے۔ کیونکہ چند دن ابل اپنی قائد محترمہ سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا ہوتا ہے زمرد خان کی رہائشگاہ پر کارکنوں سے بی بی شہید کی ملاقات میں بی بی سے ملاقات ان کی برابر کی کرسی پر بیٹھ کر ہو جاتی ہے جس میں وہ میرانام پکارتی ہیں اور میرے ہاتھ میں موجود میرے بیٹے کی تصویر کو چومتی ہیں ۔جس میں میری گرفتاری کی موقع پہ گود میں لیا ہوا ہے۔بی بی ایک جملہ انگریزی میں میں ادا کرتی ہیں جس کا مطلب یہ کہ تم بھی میری طرح اپنے بچے کو گود میں لے کر جدوجہد کر رہی ہو جیسے میں نے اپنے بیٹے بلاول کو گود میں لیکر جدوجہد کہ، تو خوشی سے آنسو نکل آئے کہ کہاں وہ شہزادی لیڈراور ان کا جانشین ہمارا قائد بلاول بھٹو زرداری اور کہاں ایک عام سی کارکن اوراس کا بیٹا مگر وہ بے نظیر تھی اس کی شخصیت بے مثال تھی اور جب اس نے کہا کہ میں تمہیں ایڈجسٹ کروں گی تم ناراض نہ ہو ۔وہ صرف ایک ملاقات سارے گلے شکوے مقامی قیادت کی زیادتیوں کو بھلا دینے کیلئے کافی تھی۔میں اپنے شہر کی ساری کارکنوں کا جلوس لیکر اپنی تینوں بہنوں اور والد صاحب کو بھی قافلے میں شامل کرکے 27 دسمبر تین بجے لیاقت باغ میں موجود تھی ۔ جلسہ گاہ کارکنوں سے بھرا ہوا تھا ، روڈ پر بھی بہت رش تھا ہم جلد جانے کی وجہ سے اسٹیج ک بالکل سامنے رو میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ہماری قائد مقامی قیادت کے ساتھ اسٹیج پرآ جاتی ہیں اور انھیں قاضی محمود سلطان صاحب اپنے ہاتھ سے لکھی ایک تقریر تھما دیتے ہیں جیسے وہ مسکرا کر پڑھتی تو ہیں مگر وہ تحریر خطاب کا حصہ نہیں بنتی ملک شیر احمد اور ملک حاکمین مالا پہناتے ہیں اور ہمارے سامنے انھیں زمرد خان کافی کا کپ پیش کرتا ہے۔ جسے پینے کے بعد ہماری شہزادی قاید اپنے پرس سے لپ اسٹیک نکا ل کر لگاتی ہیں اور فرزانہ راجہ کو اپنے سامنے کھڑا کر لیتی ہیں تاکہ پنڈال میں بیٹھے لوگ یہ عمل دیکھ نہ سکیں اور دوبارہ وہ اپنے پرس سے ٹشو نکال کراپنی لپ اسٹیک کو ہلکا کرتی ہے کہ گہرا رنگ لوگوں کو نہ دکھے مگر ان کے گالوں پہ موجود شہادت کی لالی جو ان کے چہرے کو نمایاں کرتی ہے وہ اسے نہ چھپا سکیں نہ کم کر سکیں وہ ہم سب کو واضح دکھائی دیتی ہے۔جب مقامی قیادت کی تقاریر کے بعد جب ان کے خطاب کا وقت آتا ہے تو وہ تاریخی خطاب یعنی اپنے دل سے نکلنے والے الفاظ اپنے مخصوص جوش خطابت سے مکمل کرتیں ہیں ،جس میں سوات میں امن کا قیام ،جمہوریت کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کرتی ہیں۔ اور پھر اپنے ملک کے بے روزگار نوجوان مزدروں اور کسانوں کے معاشی استحکام کا عہد کرتی ہیں۔ وہ آخر میں اپنے راولپنڈی ڈویڑن کے تمام اْمیدواروں کا ہاتھ اٹھوا کے عہد لیتی ہی کہ تم سب میرے ساتھ اس عوام کے سامنے وعدہ کرو اگر تم کامیاب ہو گئے تو سامنے ٹھنڈی زمین پر بیٹھنے کارکنوں اور اس شہر میں بسنے والے تمام غریبوں کا خیال کرو گے تم ان کیلئے اور شھر کی ترقی کیلئے کام کرو گے۔ ان کے غموں اور ان کے مسائل کا حل کروا گے۔ سب وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں پھر ہمارے سامنے وہ اسٹیج سے اتریں اور گاڑی پر سوار ہوتی ہیں پتہ نہیں اچانک کیا ہو جاتا ہے کہ ان کی گاڑی کا رخ اپنے روٹ سے ہٹ کر دوسری طرف ہو جاتا ہے اور پتہ نہیں وہ کونسا مصنوعی ہجوم ہوتا ہے۔ وہ لوگ کہاں اچانک باہر آجاتے ہیں جنہیں ہاتھ ہلانے کیلئے ہماری قائد دلیرانہ گاڑی سے باہر نکلتی ہیں اور کسی انجان گولی کا شکار ہو جاتی ہیں پھر دھماکہ ہوتا ہے اور ہماری قائد بی بی شہید ہو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ کئی کارکن جام شہادت نوش فرماتے ہیں پھر دل یہ سوچتا ہے کہ اے ظالم یہ کس مسیحا کو مار ڈالا جس کے خون کا ہر قطرہ زمین پر گرنے کی بجائے کارکنوں کے دل کی تختی پر گر کر جم گیا اور گئے آج 17سال بعد بھی کارکن اپنے لہو سے چراغاں کرتے ہیں اور شہید رانی کو سلام پیش کرتے ہیں سلام بے نظیربھٹو سلام سرخ سلام ۔بی بی کی شہادت کے چند دن بعد میں اپنی فیملی کے ہمراہ گڑھی خدا بخش گئی بی بی کی مذار پہ بال کھولے بین کرتی خواتین ملیں ۔ بھٹو ہاؤس میں آدی فریال سے ملاقات ہوئی بی بی کے لیے فاتحہ خوانی کی ۔بختاور بی بی اور آصفہ بھٹو کو گلے لگا کے افسوس کیا ۔بھٹو ہاؤس کے دروازے سارے ملک سے آنے والے کارکنوں کے لئے کھلے تھے عاصمہ جھانگیر بھی بی بی کے مزار پہ ہمارے سامنے آئیں پھر ہر سال بی بی کی برسی پہ باقاعدگی سے جانے لگیں پہلی برس کے دوران کراچی ائیر پورٹ پہ ادی نفیسہ شاہ ایم این اے سے ملاقات ہوئی وہ ہمیں اپنے گھر لے گئی اور ان سے دوستی ہو گئی جو آج تک قائم ہے ہر برسی پہ ادی نفیسہ شاہ کے ساتھ قافلے میں شامل ہو کے گڑھی خدا بخش جاتے جہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود کارکنان بی بی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور پورے ملک سے آنے والوں کو سندھی قیادت اور کارکنان مل کے میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔میں نے بھی کئی بار سید خورشید شاہ کے گھر پہ کھانا کھایابھٹو ہاؤس میں قیادت کے ساتھ ملاقات کی۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی سلسلہ رکتا نہیں اور مرد آہن آصف علی زرداری پاکستان کھپیکا نہ صرف نعرہ لگاتے ہیں بلکہ باقاعدہ صدر پاکستان بن کر ملک کو بحرانوں سے نکال لیتے ہیں نہ صرف دہشتگردی کا بلکہ مصنوعی بحرانوں کا بھی خاتمہ کرواتا ہے ۔ ملک میں پہلی بار پر امن اقتدار انتقال ہوتا ہے اور بی بی شہید کے مشن کے مطابق خواتین کی ترقی کے منصوبے BISP اور صحت کارڈ شروع کرتے ہیں خواتین کا انتخابات میں پانچ فیصد کوٹہ ہر سیاسی جماعت کیلئے دینا لازم ہوتا ،براہ راست انتخابات لڑنے کیلئے اور اس کوٹے کی بدولت کارکنوں کو عزت دینے کیلئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹی سے بہت سی کارکن خواتین کو براہ راست ٹکٹ دیتے ہیں مجھے بھی حلقہ این اے 62 کا ٹکٹ 2018 ء میں ملتا ہے اورپھر این اے 56 سب وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں پھر ہمارے سامنے وہ اسٹیج سے اتریں اور گاڑی پر سوار ہوتی ہیں پتہ نہیں اچانک کیا ہو جاتا ہے کہ ان کی گاڑی کا رخ اپنے روٹ سے ہٹ کر دوسری طرف ہو جاتا ہے اور پتہ نہیں وہ کونسا مصنوعی ہجوم ہوتا ہے۔ وہ لوگ کہاں اچانک باہر آجاتے ہیں جنہیں ہاتھ ہلانے کیلئے ہماری قائد دلیرانہ گاڑی سے باہر نکلتی ہیں اور کسی انجان گولی کا شکار ہو جاتی ہیں پھر دھماکہ ہوتا ہے اور ہماری قائد بی بی شہید ہو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ کئی کارکن جام شہادت نوش فرماتے ہیں پھر دل یہ سوچتا ہے کہ اے ظالم یہ کس مسیحا کو مار ڈالا جس کے خون کا ہر قطرہ زمین پر گرنے کی بجائے کارکنوں کے دل کی تختی پر گر کر جم گیا اور گئے آج 17سال بعد بھی کارکن اپنے لہو سے چراغاں کرتے ہیں اور شہید رانی کو سلام پیش کرتے ہیں سلام بے نظیربھٹو سلام سرخ سلام ۔بی بی کی شہادت کے چند دن بعد میں اپنی فیملی کے ہمراہ گڑھی خدا بخش گئی بی بی کی مذار پہ بال کھولے بین کرتی خواتین ملیں ۔ بھٹو ہاؤس میں آدی فریال سے ملاقات ہوئی بی بی کے لیے فاتحہ خوانی کی ۔بختاور بی بی اور آصفہ بھٹو کو گلے لگا کے افسوس کیا ۔بھٹو ہاؤس کے دروازے سارے ملک سے آنے والے کارکنوں کے لئے کھلے تھے عاصمہ جھانگیر بھی بی بی کے مزار پہ ہمارے سامنے آئیں پھر ہر سال بی بی کی برسی پہ باقاعدگی سے جانے لگیں پہلی برس کے دوران کراچی ائیر پورٹ پہ ادی نفیسہ شاہ ایم این اے سے ملاقات ہوئی وہ ہمیں اپنے گھر لے گئی اور ان سے دوستی ہو گئی جو آج تک قائم ہے ہر برسی پہ ادی نفیسہ شاہ کے ساتھ قافلے میں شامل ہو کے گڑھی خدا بخش جاتے جہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود کارکنان بی بی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور پورے ملک سے آنے والوں کو سندھی قیادت اور کارکنان مل کے میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔میں نے بھی کئی بار سید خورشید شاہ کے گھر پہ کھانا کھایابھٹو ہاؤس میں قیادت کے ساتھ ملاقات کی۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی سلسلہ رکتا نہیں اور مرد آہن آصف علی زرداری پاکستان کھپیکا نہ صرف نعرہ لگاتے ہیں بلکہ باقاعدہ صدر پاکستان بن کر ملک کو بحرانوں سے نکال لیتے ہیں نہ صرف دہشتگردی کا بلکہ مصنوعی بحرانوں کا بھی خاتمہ کرواتا ہے ۔ ملک میں پہلی بار پر امن اقتدار انتقال ہوتا ہے اور بی بی شہید کے مشن کے مطابق خواتین کی ترقی کے منصوبے BISP اور صحت کارڈ شروع کرتے ہیں خواتین کا انتخابات میں پانچ فیصد کوٹہ ہر سیاسی جماعت کیلئے دینا لازم ہوتا ،براہ راست انتخابات لڑنے کیلئے اور اس کوٹے کی بدولت کارکنوں کو عزت دینے کیلئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹی سے بہت سی کارکن خواتین کو براہ راست ٹکٹ دیتے ہیں مجھے بھی حلقہ این اے 62 کا ٹکٹ 2018 ء میں ملتا ہے اورپھر این اے 56
سے اپنے چیئرمین کے حکم پر 2024ء کا انتخاب لڑنے کا پھر ٹکٹ دیا گیا جس سے کارکنوں کے حوصلے بلند ہونے اور ایک بار پھر سے اپنی قائد شہید بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی منانے جائے شہادت پہ جوق در جوق چلے آئے ۔
بشکریہ۔۔۔۔۔سمیراگل
جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے: حماس
آرمی چیف سے ملاقات کے دوران گورنر اور وزیراعلیٰ میں تلخ کلامی، گنڈاپور اٹھ کر باہر چلے گئے
آرمی چیف سے ملاقات میں اپنا سارا معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا، بیرسٹر گوہر
3 کروڑ روپے تک کا قرضہ بلا سود ملے گا: وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز
جو کچھ ہوگامذاکراتی کمیٹی کےذریعے سب کے سامنے ہوگا، وزیراعلی کےپی
ہمارے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو احتجاج اوو سے آگے جائے گا: عمر ایوب
مذاکرات کا تیسرا دور: پی ٹی آئی نے حکومت کو تحریری مطالبات پیش کر دیے
پاکستان سے جرمنی کا ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کیلئے خوشخبری
روپے کی بے قدری جاری، انٹراور اوپن مارکیٹ میں ڈالر مہنگا
بھارتی آرمی چیف کا بیان مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش ہے: آئی ایس پی آر