خواجہ آصف اور امانت میں خیانت۔

تحریر۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل
افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات کے بعد افغان میڈیا پر پاکستان کیخلاف پروپیگنڈے کا طوفان مچا ہے۔ ایسا طوفان کہ لگتا ہی نہیں یہ میڈیا کابل سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ اس کے بجائے یہ گمان ہوتا ہے کہ کنٹرول دور مشرق میں کہیں اجودھیا یا اس کے آس پاس ہے۔
سرحد پر کیاہوا تھا۔۔ یہ کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پاکستان میں گھس کر 16 فوجی شہید کر دئیے تھے۔ ان دہشت گردوں کا تعاقب کیا گیا اور ان کے چار خودکش تربیتی مراکز تباہ کر دئیے گئے۔ بہت سے دہشت گرد مارے گئے۔ اس کے بعد افغانستان سے پھر مداخلت کی گئی، اس کا سر بھی کچل دیا گیا، تب سے یہ طوفان مچا ہے اور سرکاری سطح پر پہلی بار گرینڈ پختونستان بنانے اور پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے تین ٹکڑے، بے اختیار مرشد کی یاد آ گئی، گرفتار ہونے سے پہلے ہر روز پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے کی بات کیا کرتے تھے۔ خیر، ان نعروں میں روایتی لیفٹ اور لبرل افغان دھڑے بھی طالبان کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔
اتنی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں طالبان سے مراد وہ دھڑا ہے جو نریندر مودی کے ’’حسن بلاخیز‘‘ کا اسیر ہے۔ طالبان کا ایک بہت بڑا دھڑا پختونستان کے نعرے کا قائل نہیں، کل پرسوں ہی اس نے اپنا اجلاس کیا ہے اور ملّا مہاراج کی حکومت سے کہا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک (پاکستان) کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ یہ دھڑا حکومت میں شامل تو ہے لیکن حکومت پر غلبہ مودی مہاراج والے دھڑے کا ہے اور افغان میڈیا پر تو غلبہ نہیں، قبضہ ہے۔
______
پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے ملّا خیرخواہ نے کہا، یاد رکھو، ہم نے روس اور امریکہ جیسی سپرطاقتوں کو شکست دی، پاکستان کیا چیز ہے۔
ملّا مہاراج، آپ کو کس نے بتایا کہ روس کو آپ نے شکست دی۔ آپ تو اس وقت تھے ہی نہیں، آپ کا تولّد تو بہت بعد میں اس وقت ہوا جب پاکستان میں محترمہ بے نظیرکی حکومت تھی۔ آپ کی پیدائش کا ارتکاب پاکستان ہی نے کیا۔ روس کو شکست ان افغانوں نے دی جن کو مجاہدین کہا جاتا تھا۔ روس نکلا تو یہ دھڑے آپس میں بھڑ گئے۔ امن کیلئے پاکستان نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی بنایا۔ یہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی آپ تھے۔ آپ نے کوئی جنگ لڑی ہی نہیں۔ مجاہدین کی باہمی خانہ جنگی میں آپ کو برسراقتدار لایا گیا۔
یہ تو رہا روس کی شکست کا معاملہ اور صاف بات ہے، افغان مجاہدین کے پیچھے پاکستان نہ ہوتا تو مجاہدین کبھی جنگ جیت نہ پاتے۔ سارا فنڈ پاکستان سے، سارے ہتھیار بھی پاکستان سے اور ایک چوتھائی افغان آبادی کی مہمان نوازی بھی پاکستان سے۔
اور امریکہ سے آپ نے کیا جنگ کی۔ 2001ء سے 2021ئتک ، پورے بیس سال امریکہ کی غاصب فوج افغانستان پر قابض رہی، آپ نے کتنے امریکی فوجی مارے۔ اعداد و شمار سب دنیا کے پاس ہیں، آپ کے پاس بھی ہوں گے۔ جی، کل 2400 فوجی اس 20سال کے عرصے میں مارے گئے۔ یعنی سال کے ایک سو، مہینے کے آٹھ یا نو فوجی۔
تو یہ ہے آپکی جنگی مہارت، آپ مہینے میں آٹھ ، نو یا دس امریکی فوجی مار پاتے تھے، اس دوران آپ نے لاکھوں کے حساب سے اپنے ہم وطن افغان پشتون ضرور مارے۔ پشتونوں کی جتنی نسل کشی آپ نے کی، امریکہ اور روس نے بھی نہیں کی۔ پاکستان میں آپ نے ٹی ٹی پی چھوڑ دی، اس نے بھی زیادہ تر پشتون ہی مارے۔ امریکہ سے جتنی بھی تھوڑی بہت جنگ کی، وہ آپ نے نہیں، حقانی جنگجوئوں نے کی، آپ کا زور تو بوڑھی ضعیف عورتوں کو سنگسار کرنے، بچیوں کو زندہ دفن کرنے پر رہا۔
پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کی سوچ افغانوں کی نہیں ہے، یہ سوچ امریکہ کی یہودی لابی سے آئی ہے اور اسے بھارت کی مودی سرکار کی مدد حاصل ہے۔ پاکستان میں اس لابی کی فرنچائز کی آپ سے پارٹنرشپ ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
آپ سے کچھ اچھی امید نہیں، لیکن افغان طالبان کے موثر دھڑے سے ضرور ہے کہ وہ آپ کو لگام دے تاکہ پاکستان اور افغان اچھے برادر ملکوں کی طرح رہیں، دونوں میں اقتصادی رابطے ہوں، دونوں کے عوام بھوک اور بدحالی سے نکلیں۔
______
مسلم لیگ ن بطور جماعت تو نظر کہیں بھی نہیں آ رہی البتہ اس کے دو تین لیڈر ضرور خبروں میں رہتے ہیں جیسے رانا ثناء￿ اللہ، خواجہ آصف اور عطاء￿ اللہ تارڑ۔ ایک زمانے میں اس کی مرکزی قیادت بھی ہوا کرتی تھی یعنی کہ نواز شریف۔ خیر یہ نام تو قصہ پارینہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے سیاست ترک کر کے درویشی کی ردائے غیابت اوڑھ لی ہے۔
بہرحال، برسر میدان موجود ان تین ناموں کے اندر بھی اختلاف رائے ہے رانا ثناء اللہ نے حال ہی میں ’’مرشد‘‘ کی رہائی کی تحریک چلائی ہے۔ رہائی کو وہ بنی گالہ میں نظربندی کا پارلیمانی نام دیتے ہیں۔ خواجہ آصف اور عطاء اللہ تارڑ اس خیال کے حامی نہیں ہیں، وہ اس سے الٹ ارادے رکھتے ہیں۔
اس آپسی اختلاف پر بحث یا اظہار خیال کا کوئی ارادہ نہیں، البتہ اس بحث میں خواجہ آصف کے ایک فقرے پر نظر اٹک گئی اور جی چاہا کہ اس پر خواجہ صاحب سے جواب طلبی کی جائے۔
خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ’’مرشد‘‘ پاکستان میں اسرائیل کا اثاثہ ہیں۔ خواجہ صاحب نے مرشد کے بارے میں مزید بھی کچھ ارشاد فرمایا لیکن اس سے غرض نہیں۔ جواب طلبی اب خواجہ صاحب سے یہ ہونی چاہیے کہ اثاثہ اسرائیل کا ہے تو آپ نے اسے قبضے میں لے کر، لاکر میں بند کیوں کر رکھا ہے۔ یہ اثاثہ آپ امانت کیوں نہیں سمجھتے اور امانت جس کی ہے، اس کے حوالے کیوں نہیں کرتے۔
اثاثے کو ’’لاکر‘‘ میں بند کر کے آپ امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں خواجہ صاحب!
______
مرشد کا ذکر سندھ کے وزیر خواب رسانی منظور وسان نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ مرشد آنے والے دنوں میں مزید تنہائی کا شکار ہو جائیں گے اور اکیلے ہی مار کھائیں گے۔
مزید تنہائی سے کیا مطلب؟۔ یعنی رانا ثنا بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے؟
بشکریہ۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں