تحریر۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل
پسند ناپسند، خوب ناخوب کا پیمانہ موسم کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ گرمیوں میں جو آدمی آبِ سرد کی چاہ میں مرا جاتا ہے، سردیوں میں ٹھنڈے پانی کے محض ذکر سے اسی کی جان جاتی ہے۔ جو دھوپ سردیوں میں سخت نیک مطلوب ہوا کرتی ہے، گرمیوں میں وہی سخت مردود قطعی غیر مطلوب ہو جاتی ہے۔ موسم بدلتا ہے تو سوچ بھی وہ نہیں رہتی۔ اور یہ تو دنیا بھر کا معاملہ ہے، پاکستان کا ماجرا تو اور بھی خصوصی ہے کیونکہ یہاں تو قدرت کی عنایت سے، مرشد کے بقول، بارہ موسم ہوتے ہیں۔ رہا سیاسی موسم ، وہ تو جیسے ہر ہفتے بدل جاتا ہے۔ کم از کم مرشد کی حد تک
ہر ہفتے ہے مرشد کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں یوٹرنوں کا طوفان۔
کچھ دن پہلے تک مرشد فارم 47 والوں کی حکومت کا نام تک سننے کا روادار نہیں تھا۔ فارم 47 والوں کی حکومت سے مذاکرات ناممکن ، ہو ہی نہیں سکتے کی تکرار تھی، اچانک موسم جو بدلا تو دل فارم 47 والوں سے ملنے کو بے قرار ہو گیا۔ مذاکراتی ٹیم نے کہا، مرشد وہ تو ہمیں آپ سے ملنے کی اجازت ہی نہیں دے رہے۔ مرشد نے کہا تو کیا ہوا، مذاکرات پھر بھی کرو، عرض کیا، مرشد انہوں نے ہماری پیشگی شرطیں مسترد کر دی ہیں، فرمایا، تو کیا ہوا، ابھی جائو اور مذاکرات کرو، عرض کیا، مرشد وہ کہتے ہیں فلاں فلاں مطالبے واپس لے لو، فرمایا تو کیا ہوا، فوراً مطالبات واپس لے لو مجھے ہر قیمت پر رہائی، میرا مطلب ہے مذاکرات چاہئیں۔
موسم کیا بدلا، دھرپد کی تان بھی پلٹ کر بلمپت کی لے ہو گئی
____
مرشد نے تازہ فرمان جاری کیا ہے کہ امریکہ کو پہلے بھی ایب سو لیوٹ لی ناٹ کہا ہے، آئندہ بھی ایب سو لیوٹ لی ناٹ کہتے رہیں گے۔
یہ کیا ہو گیا یعنی، عوام پورے ڈیڑھ مہینے تک ٹرمپ انکل سے مداخلت کی اپیلوں کے ترانے سنتے رہے، رچڑڈ گرینل کے قصیدے سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے، اب اتنا بڑا پلٹا، اتنا اچانک ؟
شاید امریکہ سے کوئی ’’اندرونی خبر‘‘ ناپسندیدہ قسم کی آ گئی ہے۔ ادھر تین ہفتے ہو گئے، گرینل پاپا کا کوئی ٹویٹ بھی نہیں آیا۔ دو ماہ پہلے پکّی خبر ٹی وی چیلنز کے ’’معتبر‘‘ ترین اینکرز کی زبانی سْنی تھی، لکھ لو کے انداز میں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ٹرمپ کا ٹویٹ آ رہا ہے۔ اْس ہفتے کو گزرے اب سات ہفتے ہو گئے۔
کچھ کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی بارگاہ میں مرشد کی عرضی کا اندراج ہو چکا ہے اور نمبر بھی لگ گیا ہے لیکن مسئلہ باری کا ہے اور شاید مرشد کو بتا دیا گیا ہے کہ ٹرمپ پہلے کینیڈا پر قبضہ کریں گے، پھر گرین لینڈ کی رجسٹری اپنے نام کروائیں گے، پھر نہر پانامہ پر اپنا جھنڈا گاڑیں گے۔ اس کے بعد یورپی یونین کا قلع قمع کریں گے۔ اس کے بعد چین سے نمٹیں گے۔ اس دوران مشرق وسطیٰ میں مدر آف آل ڈیلز کی باری بھی آئے گی۔ جب یہ سارے قضیے تمام ہو چکے ہوں گے، تب دیگر امور کی باری آئے گی اور تسلّی رکھیں، آپ کی عرضی بھی ان دیگر امور میں شامل ہو گی۔
یہ اطلاع پا کر مرشد بے چارہ کیا کرتا، سوائے اس کے کہ طاق نسیاں سے ایب سو لیو ٹ لی کی ڈفلی نکالتا، جمی ہوئی گرد جھاڑتا اور اس پر ایک تھاپ جڑ دیتا، سو جڑ دی۔
____
پی ٹی آئی کے ایک دھڑے کے قائد اختر اقبال ڈار نے بڑی عدالت میں عرضی ڈالی ہے کہ کرپشن کی سزا ’’موت‘‘ مقرر کی جائے۔ یہ استدعا بھی کی ہے کہ بچوں سے زیادتی کرنے والوں کیلئے بھی یہی سزا ہونی چاہیے۔
سزا مقرر کرنا عدالت نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے۔ کرپشن پر سزائے موت تو شاید دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ یاد آیا، مرشد ہر جلسے میں تقریر کرتے ہوئے یہ ’’اطلاع‘‘ دیا کرتا تھا کہ چین میں کرپشن کی سزا گولی ہے، یعنی گولی سے اڑا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہ اطلاع انہیں خود کہاں سے ملی؟ شاید اسی کتاب سے جس میں جرمنی جاپان کے بارڈر دکھائے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سال کے بارہ موسم ہوتے ہیں۔
چین میں کرپشن کی سزا پہلے تو بہت معمولی تھی ، بدقسمتی سے کرپشن کا دائرہ خاصا پھیلا ہوا ہے، کتنوں کو پکڑیں والا معاملہ ہے، بہرحال اس ایک دو سال قید کو گزشتہ برس یعنی مارچ 2024ء میں بڑھا کر 10 سال قید کر دیا گیا۔ یعنی زیادہ سے زیادہ دس سال۔
مسئلہ پاکستان میں البتہ دوسرا ہے۔ یہاں کرپشن پر کوئی سزا ہے ہی نہیں، آپ کتنا بڑا مجرم کرپشن پر پکڑ لیں، اگلے ہی روز ضمانت ہو جائے گی۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ مرشد کے مرشد دوئم پرویز مشرف (مرشد اوّل ایوب خاں تھے) نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا۔ انہوں نے قانون بنایا کہ بقدر توفیق جتنی چاہے کرپشن کرو، اس کا کچھ فیصد نیب کے افسروں کو چائے پانی کیلئے دے دو، باقی سب تمہارا۔ ایک ارب کی کرپشن کی ہے ، کچھ کروڑ نیب کو دو، باقی رقم حق حلال کی کمائی سمجھ کر اپنے پاس رکھو۔ اس قانون کو ’’پلی بارگینگ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد سے تو یوں سمجھئے کہ کرپشن کی جے جے کار ہو گئی۔ بعدازاں مرشد کی حکومت آئی، ان کا یہ ساڑھے تین سال کا دور کرپشن کیلئے ’’حقیقی آزادی‘‘ کا دور تھا۔ ایک محترمہ نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ساجھے داری اور ملک کی ’’بڑی محترمہ‘‘ کی سرپرستی میں کرپشن گینگ بنایا اور اربوں کی کمائی کی۔ مرشد کی حکومت ختم ہوئی، کرپشن پکڑنے والے ادارے نے محترمہ کو پکڑنا چاہا، عدلیاتی فرشتے حرکت میں آئے اور راتوں رات ان صاحبہ کو فرار کروا دیا گیا۔
چنانچہ عرض ہے کہ سزا کا قانون بنانے کی ضرورت نہیں، قانون بحال کرانا اہم ہے۔ عملاً پاکستان میں کرپشن کی کوئی سزا ہے ہی نہیں۔ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر صاحب مریضوں کے گردے نکال کر بیچنے کا دھندہ کرتے تھے، (خیر سے اب بھی کرتے ہیں) اور اس کے بھائی ملک کے چیف جسٹس تھے۔
رہی بچوں کے قتل پر سزا کی بات تو اس کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ بچے ہی نہیں، عورتیں قتل کرنا بھی یہاں مطلق حلال ہے۔ ہر روز ایک بچے کی لاش ملتی ہے، ہر روز یہ خبر بھی آتی ہے کہ فلاں جگہ ایک غیرت مند بھائی نے بے غیرت بہن کو قتل کر دیا۔ جسے بہن نہیں ملتی وہ ماں کو قتل کر دیتا ہے، جسے ماں بھی نہیں ملتی ، وہ بھانجی بھتیجی یا سالی کو قتل کر دیتا ہے۔ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں، کسی کو بہن، ماں، بھتیجی کوئی بھی نہ ملے تو وہ پڑوسی کو ’’بلاس فیمی‘‘کا غل مچا کر محلے داروں کے ہاتھوں مروا دیتا ہے۔
مند بھائی نے بے غیرت بہن کو قتل کر دیا۔ جسے بہن نہیں ملتی وہ ماں کو قتل کر دیتا ہے، جسے ماں بھی نہیں ملتی ، وہ بھانجی بھتیجی یا سالی کو قتل کر دیتا ہے۔ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں، کسی کو بہن، ماں، بھتیجی کوئی بھی نہ ملے تو وہ پڑوسی کو ’’بلاس فیمی‘‘کا غل مچا کر محلے داروں کے ہاتھوں مروا دیتا ہے۔ اس طرح جرائم پر سزائوں کا خیال، پاکستان میں…؟ دیوانے کا خواب ہے بھائی۔ ہمارا نظام انصاف ’’کرائم فرینڈلی” تھا، ہے اور رہے گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
0