تحریر۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل
اسلام آباد کی عدالت نے ایک میاں بیوی کو 190 ملین پائونڈ چوری کرنے پر بالترتیب 14 اور سات سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ بادی نظر والوں کے نزدیک یہ سزا درست ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اتنی بڑی چوری پر اس سے بھی بڑی سزا ہونی چاہیے تھی لیکن اصل بات یہ ہے کہ معاملے کو بادی نظر سے نہیں، صفراوی اور سوداوی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موخرالذکر نظور سے دیکھا جائے تو یہ سزا سراسر ناانصافی ہے اور اس کی دو ٹھوس وجوہات ہیں۔ ایک قدرے کم ٹھوس، دوسری قدرے زیادہ ٹھوس۔ قدرے کم ٹھوس وجہ یہ ہے کہ چور میاں بیوی نے یہ چوری اپنے لئے نہیں کی تھی۔ ایک نیک نام ڈان کی خوشی (یا ایک تلفظ کے تحت ڈان کی خوشی) کیلئے کی تھی۔ اس نیک نام ڈان کے چور میاں بیوی پر بہت احسانات تھے۔ چنانچہ ایک تو یہ بات ہوئی کہ احسان کا بدلہ اتارا گیا اور دوسری بات یہ کہ ڈان نے اس احسان کے عوضانے میں چور میاں بیوی کو پانچ چھ ارب روپے کی اراضی تحفے میں دی جس پر چور میاں بیوی نے اسلومیاتی روحونیاتی یونیورسٹی بنانی تھی تاکہ قوم کے بچوں کو اپنی طرح کا نیک پارسا بنایا جا سکے۔
یعنی ایک نہایت ہی اچھا کام کرنیوالے تھے۔ اس اچھے کام کی نیت کو بادی نظر والوں نے نظرانداز کر دیا جو بہت ہی افسوسناک بات ہے۔
اور افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اسی مہینے کی چھ تایخ کو یعنی محض دس بارہ دن پہلے لاہور میں بھی اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آ چکا ہے۔ یہاں ایک نیک دل پارسا شوٹر عثمان کو اس لئے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے عمرہ کے دو ٹکٹ کے عوضانے پر ایک شہری ریاض کو اس کی بیوی کے سامنے قتل کر دیا تھا۔ نیک دل شوٹر اس واردات کے بعد عمرہ پر جانے کی مقدس روانگی کیلئے تیاری کر رہا تھا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ یعنی ایک شخص کو مقدس فریضے کی ادائیگی سے روک دیا گیا__ ! یعنی محض جنوری کے ایک مہینے میں دو دو سانحے ہو گئے۔
غضب ہے اور دہائی ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں نیک کام کرنے والوں کو پکڑا جا رہا ہے اور انہیں سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اْمید کی جاتی ہے کہ مفتی اعظم تلمبہ شریف اس غیر شرعی رویے کیخلاف کوئی فتویٰ ارشاد فرمائیں گے اور یہ دعا بھی رو رو کر فرمائیں گے کہ خدا ان میاں بیوی اور لاہور والے نیک دل شوٹر کی اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے آگے سے پیچھے سے حفاظت فرمائے۔
_____
پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات میں ا پنا تین صفحات پر مشتمل مطالبات نامہ پیش کر دیا ہے۔ ایک نظر ان تین صفحات پر ڈالنے سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ مطالبات نامہ ہے یا مطائبات نامہ ؟
خیر، ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں مینڈیٹ چوری کا ذکر ہے نہ مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ۔ شاید فارم 45 والوں نے فارم 47 والوں کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا ہے جو بظاہر اچھی بات ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بیان نے کام دکھا دیا ہو۔ ہفتہ ڈیڑھ پہلے انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ فارم 47 والے اصل میں خود پی ٹی آئی والے ہیں، انہوں نے دھاندلی کر کے کے پی صوبے میں اکثریت اور حکومت بنائی ہے چنانچہ عین ممکن ہے کہ یہ مطالبہ شامل کرتے وقت پی ٹی آئی کے لوگوں کو مولانا کا یہ بیان یاد آ گیا ہو اور انہوں نے یہ مطالبہ درج کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہو، یعنی سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا والا معاملہ ہو گیا ہو۔
باقی مطالبات تو چلئے، بحث ہو سکتی ہے کہ قابل عمل ہیں یا نہیں لیکن ایک مطالبہ تو قطعی ناقابل عمل ہے۔ وہ یہ کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں قتل عام کی تحقیقات کیلئے کمشن بنایا جائے۔ 26 نومبر کی رات حکومت اور فوج نے کئی ہزار افراد کا قتل عام کر کے کالے جادو کی مدد سے، قتل عام کے اگلے ہی لمحے یہ کئی ہزار لاشیں غائب کر دی تھیں۔ کالے جادو کا کالا چمتکار ملاحظہ ہو، سی سی ٹی وی کیمرے بھی یہ منظر دیکھ کر کالے پڑ گئے اور کوئی چیز ریکارڈ نہ کر سکے۔ اور تو اور، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کا زبردست غول بیابانی بھی قتل عام کے موقع پر اپنے سینکڑوں ہزاروں موبائل کیمروں کے ہمراہ موجود تھا لیکن کالے جادو کی وجہ سے کوئی بھی موبائیل کیمرہ اس قتل عام کو ریکارڈ کر سکا نہ ہزاروں لاشیں پلک جھپکتے میں غائب کرنے کا عمل دیکھ سکا۔ مزید اور تور اور۔ ہزاروں مقتولوں کے سڑک پر گرنے بہنے والے خون کے ایک ایک قطرے کو بھی اس کالے جادو کے تحت غائب کر دیا گیا۔
مطالبہ قابل عمل اس لئے نہیں ہے کہ دنیا کا کوئی بھی عدالتی کمشن کالے جادو کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ عدالتی کے بجائے جادو گروں پر مشتمل کمشن بنانے کا مطالبہ کرے۔ اس طرح کے کمشن بنانے کیلئے مناسب رہنمائی مرشدانی جی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مطالبات نامے میں مرشد کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کی تحقیقات والا مزاحیہ نکتہ بھی شامل ہے۔ مزاحیہ اس لئے کہ اس واقعے کی تحقیقات سپریم کورٹ پہلے ہی کر چکی ہے اور فیصلہ بھی سنا چکی ہے۔ فیصلے کیخلاف اپیل کرنے کا تو سنا تھا، فیصلے پر عدالتی کمشن بنانے کا پہلی بار سنا۔
بہرحال، اس گرفتاری پر کمشن بنانے کے مطالبے پر یاد آیا کہ فیض پر اسرار رحونیاتی مظاہر ایسے ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں کہ سارا عالم ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے۔ ہر شخص پھر یہی سوچتا ہے کہ یا الٰہی ، یہ ماجرا کیا ہے، یہ کیسے ہوا۔ چنانچہ قطعی مناسب ہو گا کہ ایسے مافوق الفہم اور خارق العادات واقعات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کوئی رحونیاتی کمشن بنایا جائے جو ان کی تہہ تک پہنچے۔
یہ رحونیاتی کمشن اپنی تحقیقات کا آغاز 2023ء میں پیش آنے والے واقعے سے کر سکتا ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت کی حدود میں پیش آیا۔ واقعہ یوں تھا کہ ایک آدمی جس کی دونوں ٹانگیں گولیاں لگنے سے چھلنی ہو چکی تھیں اور وہ کئی ماہ سے معذور تھا، وہیل چیئر پر بیٹھ کر عدالتی پیشیوں پر حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس کے ذاتی معالجوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جو اس کی معذور اور چھلنی ٹانگوں کا علاج کرنے میں ناکام رہی تھی۔ تو ہوا یوں کہ یہ معذور شخص وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا اپنی معذوری پر آٹھ آٹھ نو نو آنسو بہا رہا تھا کہ کہیں سے ایک چھاپہ مار ٹیم داخل ہوئی۔ ایک سپاہی نے معذور کی گدّی پر ہاتھ جڑ دیا۔ ہاتھ کا جڑنا تھا کہ معجزہ ہو گیا اور معذور شخص کرسی چھوڑ کر، سپیڈ کی لائٹ سے بھاگا اور بھاگتا ہی چلا گیا اور بھاگتے بھاگتے پرزن وین میں جا بیٹھا۔
مجوزہ رحونیاتی کمشن اس واقعے سے اپنے رحونیاتی تفتیشاتی سفر کا آغاز کر سکتا ہے۔
_____
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے انتباہ کیا ہے کہ حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو ان کی چھٹی ہو جائے گی۔
لگتا ہے یہ بیان اڑھائی سال پہلے دیا ہو گا، چھپا اب ہے ورنہ حافظ صاحب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خطرہ اور خطرے ناک دونوں اپریل 2022ء میں رخصت ہو چکے۔
بشکر یہ ۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل